• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ تجارتی و معاشی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے اس کے باوجود یہاں انفراسٹرکچر کی زبوں حالی اور بنیادی شہری مسائل کا اب تک حل نہ ہونا نہ صرف اچھنبے کی بات ہے بلکہ سندھ حکومت اور بلدیاتی اداروں کی کارکردگی پر بھی مسلسل سوالیہ نشان ہے لیکن المیہ تو یہ ہے کہ اختیارات کے دونوں صوبائی و بلدیاتی مراکز اس شہر کے مسائل کے حل کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں۔ اس وقت شہر قائد کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ جن میں جا بجا کچرے کے ڈھیر، آوارہ کتے، لینڈ مافیا، ٹینکر مافیا اور ڈرگ مافیا شامل ہیں جن کی نشاندہی کرتے ہوئےجیو کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں بتایا گیا کہ کراچی کو مختلف مافیاز نے یر غمال بنا رکھا ہے جن کی وجہ سے شہریوں کو نہ پینے کا صاف پانی میسر ہے اور نہ صاف ماحول۔ روزانہ 600ملین لیٹر گندا پانی سمندر میں پھینکا جارہا ہے جو سمندری حیات کو ختم کررہا ہے اور پاکستان نیوی کے جہاز بھی متاثر ہورہے ہیں جبکہ گندگی کی وجہ سے آوارہ کتوں کی افزائش میں اضافہ ہوا ہے اور سگ گزیدگی کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں۔ دوسری جانب پانی کا بحران بھی شدت اختیار کرگیا ہے اور شہری ٹینکر مافیا سے مہنگے داموں پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ انفراسٹرکچر اور صفائی کے اعتبار سے کراچی دوسرےشہروں سے پیچھے رہ گیا ہے۔ پروگرام میں وزیر بلدیات سندھ سعید غنی، میئر کراچی وسیم اختر نے کچرے سے بھرے علاقوں کا دورہ کیا تاہم دونوں نمائندوں میں سے کسی نے مسائل کی ذمہ داری قبول نہ کی۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ کچرا اٹھانا ہماری ذمہ داری نہیں، ڈی ایم سیز کا کام ہے جبکہ میئر کراچی نےاس ضمن میں اختیارات اور فنڈز کی کمی کا شکوہ کیا۔ یہاں اہالیانِ کراچی یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ صوبائی و بلدیاتی نمائندوں کو انہوں نے اپنے مسائل کے حل کیلئے ہی ووٹ دے کر منتخب کیا تھا ایسے میں ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنا اپنی ذمہ داریوں سے دامن چھڑانے کے مترادف نہیں؟

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین