• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیئرمین سینیٹ ہٹانے پراتفاق، اپوزیشن APC میں 25 جولائی کو یوم سیاہ ، عوامی رابطہ مہم چلانے کا فیصلہ، بجٹ، قومی ترقیاتی کونسل، قرضہ کمیشن اور ججز کیخلاف ریفرنس مسترد

اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ سیل) اپوزیشن جماعتوں کا کُل جماعتی کانفرنس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو آئینی طریقے سے ہٹانے پر اتفاق ہوگیا،نئے چیئرمین سینیٹ کو لانے کا فیصلہ اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی کریگی، دھاندلی زدہ عام انتخابات کیخلاف 25 جولائی کو ʼیوم سیاہ منانے اور عوامی رابطہ مہم چلانےکا بھی فیصلہ کرلیا جبکہ بجٹ،قومی ترقیاتی کونسل،قرضہ کمیشن اورججز کیخلاف ریفرنسز مسترد کر دیا۔ ان خیالات کا اظہار جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بدھ کو آٹھ گھنٹے طویل جاری رہنے والے اے پی سی کے اجلاس کے بعد مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کے ہمرا ہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ دھاندلی زدہ حکومت کے باقی رہنے کا جواز نہیں،شہبازشریف نے کہا کہ بجٹ کو ناکام بنانے کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی، مریم نواز نے کہا کہ حکومت کے رہتے صورتحال مزید خراب ہوگی، اقدام نہ اٹھایاتوعوام اعتمادنہیں کریگی۔ مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا ہے کہ25 جولائی کو دھاندلی زدہ الیکشن کیخلاف یوم سیاہ منانے کا فیصلہ کیا گیا جس دوران اپوزیشن کے مشترکہ جلسے ہونگے،سیاسی جماعتیں پارلیمان کے اندر اور باہر بھرپور احتجاج جاری رکھیں گی، وزیراعظم کا قرضوں کے خلاف انکوائری کمیشن مستر د کرتے ہوئے اسے پارلیمنٹ پرحملہ قرار دے دیا گیاہے ،رہبرکمیٹی نئے چیئرمین سینیٹ کیلئے متفقہ امیدوارلائے گی،پارلیمانی نظام حکومت ،18ویں ترمیم کیخلاف کوششوں کی مذمت کی گئی۔ قبل ازیں اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کی رہائشگاہ پر ہونے والی اے پی سی میں شہبازشریف، بلاول بھٹو زرداری، یوسف رضا گیلانی، اسفند یار ولی، پشونخوا ملی عوامی پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔اے پی سی کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ملکی معیشت زمین بوس ہو چکی ہے،حکومتی فیصلےملکی سلامتی، خودمختاری اور بقاء کیلئے خطرہ بن چکے ہیں،نام نہاد حکمرانوں کو تمام سیاسی جماعتیں مستردکرچکی ہیں،ملک کا ہر شعبہ زبوں حالی کا شکا رہے اور ملکی معیشت زمین بوس ہو چکی ہے، ملک دیوالیہ پن کی حدود کو عبور کرنے کی تیاری کر رہا ہے، حکومتی قیادت کے فیصلوں نے ہمارے شکوک و شبہات کو یقین میں بدل دیا ہے۔کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مہنگائی سے غریب عوام کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور بیرونی قرضوں کا سیلاب اور معاشی اداروں کی بد نظمی معیشت کو دیوالیہ کرنے کو ہے، غربت و افلاس کی بڑھتی صورتحال پر تشدد عوامی انقلاب کی راہ ہموار کرتی دکھائی دیتی ہے، معاشی زبوں حالی، بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ ملکی سلامتی کیلیے بڑا چیلنج بن چکے ہیں اور حکمرانوں کا ایجنڈا ملکی مفادات کی بجائے کسی گھناؤنی سازش کا حصہ ہے، بیرونی قرضوں، بیرونی ادائیگیوں کے توسط سے بیرونی طاقتوں پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے جبکہ بڑھتی شرح سود،کمزور ہوتا روپیہ اور بڑھتے ٹیکس منفی عوامل ہیں جن سے برآمدات مزید کم ہوں گی، بیرونی تجارت اور بیرونی ادائیگیوں کا خسارہ بڑھے گا۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو ملک دشمن قوتوں کی ایماء پر معاشی طور پر کمزور کیا جا رہا ہے، بزنس کے مواقع مشکل بنا دیئے گئے ہیں اور معیشت آئی ایم ایف کے سپرد کر دی گئی ہے، موجودہ حکومت کی طرف سے قومی خارجہ امور میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا، اسٹریٹجک اثاثے اور سی پیک بچانے کے لیے ریاستی اداروں کی پشت پناہی کرتے ہوئے ان کا دفاع کرنا ہو گا۔جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کل جماعتی کانفرنس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ دھاندلی شدہ انتخابات کے خلاف 25 جولائی کو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے یوم سیاہ منایا جائے گا اور حکومت کے خلاف مشترکہ جلسے کیے جائیں گے، یوم سیاہ پر چاروں صوبوں میں مشترکہ جلسے کیے جائیں گے،اے پی سی میں پارلیمانی نظام حکومت اور اٹھارہویں ترمیم کے خلاف کوششوں کی مذمت کی گئی،اے پی سی میں اپوزیشن کے تمام ممبران کے دھاندلی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ اجلاس میں منصفانہ اور غیر جانبدارانہ احتساب پر زور دیا گیا اور جعلی احتساب کو مسترد کیا گیا۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ کل جماعتی کانفرنس میں کرپشن کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے انکوائری کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے پارلیمنٹ پر حملہ قرار دیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ 2000 سے اب تک کے قرضے کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے،مجوزہ قومی ڈیولپمنٹ کونسل (این ڈی سی) ایک غیر ضروری ادارہ ہے جس کی قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کی موجودگی میں کوئی ضرورت نہیں، یہ اقدام اداروں کو متنازع بنانے کی کوشش ہے جسے اجلاس نے مسترد کیا، اے پی سی میں جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا گیا۔2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی،دھاندلی کے ذریعے آنے والی حکومت کے باقی رہنے کا کوئی جواز نہیں ،ہمیں عوام کی مشکلات اور حکومت کے کے خاتمے کے لئے مل کر آگے بڑھنا ہو گا ،ہم نے انتخابی دھاندلی پر حکومت کے خلاف آواز اٹھائی تھی،اپوزیشن کے اس کے موقف کو آگے نہیں بڑھایا جاسکا ،مہنگائی اور عوامی مسائل میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ،حکومت کے خلاف اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر ہونا چاہئے،دھاندلی سے بات شروع کی تھی معاملہ اب عوام کی دادرسی کا ہے ۔شہبازشریف نے اے پی سی میں اظہار خیال خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے سڑکوں پر بھی آنے پڑے تو نکلنا چاہئے ،تمام اپوزیشن کی جماعتیں مل کر کسی لائحہ عمل پر متفق ہوں،چوری کے ووٹوں سے حکومت بنی عوام کی تکالیف کی ترجمانی نہ کی تو بڑا برا ہو گا،ہمیں ہر وہ حربہ اختیار کرنا چاہئےجس سے حکومت کو گھر بھیجا جا سکے،عوام دشمن بجٹ نے لوگوں کی چیخیں نکال دی ہیں،غیر مناسب بجٹ کو ناکام بنانے کے لئے ہمیں مل کر جدوجہد کرنی ہوگی،دھاندلی زدہ حکومت عوام کی نمائندگی کرہی نہیں سکتی،بجٹ کومسترد کرچکے ہیں،پارلیمینٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر کردار ادا کریں گے،آئی ایم ایف کا بنایا ہوا بجٹ عوام دشمن،کسان دشمن اور کاروبار دشمن ہے،ہم سب کو ملکر اس معاشی بدحالی کے دلدل سے عوام نجات دلانی ہے،چاہتے ہیں کہ ہم عوام کی بھرپور نمائندگی کریں، شہبازشریف نے اے پی سی میں رہبر کمیٹی کے قیام کی تجویز دیدی،رہبر کمیٹی میثاق معیشت اور قومی چارٹر تیار کرے گی۔مریم نواز کا کہنا تھا کہ ہماری لڑائی عمران خان سے نہیں انہیں سلیکٹ کرنے والوں سے ہے،یہ سچ ہے کہ تاریخ کی بدترین دھاندلی کے خلاف اپوزیشن مؤثر آواز نہیں اٹھا سکی، عمران خان اور جعلی حکومت کی نالائقی اور نااہلی بری طرح بے نقاب ہوگئی مگر اب عوام کو غیر مبہم اور واضح پیغام دینا چاہیے جس میں الفاظ کا ہیر پھیر نہیں ہونا چاہیےک،چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی پر بھی کوئی متفقہ فیصلہ کرنا چاہیے، یہ پہلی اینٹ سرکے گی تو جمہوریت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والی حکومت کی بنیادیں ہل جائیں گی۔مریم نوازشریف سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ اے پی سی میں کیا فیصلے ہوئے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ابھی بات چیت جاری ہے، کیا حکومت جاتی ہوئی نظر آ رہی ہے؟ جس پر مریم نواز نے انشا اللہ کہتے ہوئے کہا کہ آج ہم نے کچھ نہ کیا توعوام مایوس ہونگے،ہمیں حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔عوام کو اپوزیشن سے بہت توقعات ہیں، اگر قابل عمل لائحہ عمل عوام کے سامنے نہ رکھا تو مایوسی بڑھے گی، یہ نہ ہو کہ حکومت سے تنگ عوام اپوزیشن سے کوئی امید باندھنے کی بجائے اپنے فیصلے خود کرلے، اگر عوام بپھر گئے تو بات حد سے بڑھ جائے گی،ہم کب تک وسیع تر قومی مفاد کے پیچھے چھپتے رہیں گے؟ وقت آگیا ہے کہ اس اصطلاح کو تبدیل کریں، کیا وسیع تر قومی مفاد کا مطلب ظلم کو تسلیم کرلینا اور گردن جھکا دینا ہے؟ مریم نواز نے نیب کے زیر حراست تمام افراد کو سیاسی قیدی ڈیکلیئر کرنے کی تجویز بھی دی۔نواز شریف، شہبازشریف، حمزہ اور میں ایک ہیں، کوئی اختلاف نہیں، پوری پارٹی کا نواز شریف اور شہباز پر بھرپور اعتماد ہے، ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف تو کرسکتے ہیں البتہ فیصلہ لیڈر شپ کا ہوتا ہے اور لیڈرشپ کا فیصلہ خوش دلی سے قبول ہوتا ہے۔عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اسفندیارولی نے چیئرمین سینیٹ کوہٹانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین سینٹ کوتبدیل کیاجاناچاہئے،اپوزیشن نے یہ اقدام نہ اٹھایاتوعوام اعتمادنہیں کریگی،حکومت مخالف تحریک پنجاب میں شروع کی جائے۔میاں افتخار کاکہناہے کہ اے پی سی میں حکومت مخالف احتجاجی تحریک پر اتفاق ہو گیاہے،کمیٹی احتجاجی تحریک سے متعلق پلان تیارکرےگی،اے پی سی میں شرکت سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس میں شہبازشریف کی قیادت میں متحدہ اپوزیشن کا اجلاس ہوا جس میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ نے اے پی سی میں بلاول بھٹو اور شہباز کی شرکت کا فیصلہ کیا۔نیشنل پارٹی کے رہنما حاصل بزنجو نے کہا کہ جب تک اس ملک کو سیکیورٹی اسٹیٹ سے ویلفیئر اسٹیٹ نہیں بنایا جائے گا ملک ترقی نہیں کرسکتا، نیب انہی اداروں کے ماتحت کام کررہا ہے،مضبوط فورم تشکیل دے کر فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔ شہبازشریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کا 14 رکنی وفد اے پی سی میں شریک ہے،وفد میں راجا ظفرالحق، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، سینیٹر جاوید عباسی، ایاز صادق، سردار مہتاب خان، احسن اقبال، جنرل (ر) قادر بلوچ، رانا ثنااللہ، شاہ محمد شاہ، ڈاکٹر عباد، مرتضیٰ جاوید عباسی اور مریم اورنگزیب شامل ہیں۔دوسری جانب پیپلز پارٹی نے کُل جماعتی کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے 5 رکنی وفد کا اعلان کیا ہے جو یوسف رضا گیلانی، رضا ربانی، نئیر بخاری، شیری رحمان اور فرحت اللہ بابر پرمشتمل ہے۔اجلاس میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر بھی اکثریتی جماعتوں نے اتفاق کیا ہے تاہم بلاول بھٹو زرداری نے تحریک چلانے کی تاحال حمایت نہیں کی۔ اے پی سی نے وزیرستان کے ارکان قومی اسمبلی محسن داوڑ ، علی وزیر خان کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کردیا۔اے پی سی نے قبائلی اضلاع میں حراستی مراکز کو عام جیلوں میں تبدیل کرنے اور قیدیوں کو عدلیہ تک رسائی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اجلاس نے مطالبہ کیا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قانون سازی کی جائے، وہ لوگ جو سیکورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں انہیں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے، سابقہ قبائلی علاقہ جات میں صوبائی اسمبلی کے 20 جولائی 2019 کو صوبائی اسمبلی کے ہونے والے انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کے حالیہ نوٹیفکیشن جسکے تحت فوج کو پولنگ اسٹیشنوں کے اندر تعینات کرنے اور سمری ٹرائل کرنے کے اختیارکا نوٹیفکیشن فی الفور واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔

تازہ ترین