• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سرفرازتبسم …برطانیہ
نامور شاعر نغمہ نگار دانشور حمایت علی شاعر کی وفات کی خبر سے دل دکھ اورکرب سے بھر گیا۔ اس خبر کے بعد کئی اہم واقعات ایک ساتھ میرے ذہن میں فلم کی طرح چلنے لگے دراصل موصوف سے میرا پہلا تعارف 1996میں کراچی سے شائع ہونے والے شبنم رومان کے ادبی جریدہ’اقدار‘سے ہوا جس میں ان دنوں حمایت علی شاعرکی سرگذشت کے عنوان سے آپ بیتی قسط وار شائع ہوتی تھی کئی سال وہ آپ بیتی قسط وار چلتی رہی جو ہندو پاکستان کے سیاسی سماجی اور ثقافتی پہلوئوں کے گرد گومتی ہوئی قیام پاکستان کے وقت ہجرت وخون سے لت پت لباس میں لپٹی ایک یادگار کہانی کی طرح چلتی جاتی تھی اس کومسلسل پڑھتے رہنے اور اس وقت کے واحد ٹی وی چینل PTV پر ان کے مشاعرے سننے کے بعد ان سے ملنے کی تمنّا پیدا ہوئی تو1998میں میں اور شاہ زیب انجم کو پاکستان کرسچن رائٹرز گلڈ کراچی کی سالانہ کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے دعوت نامہ ملاوہاں پہنچ کر پہلے دو تین دن تو کانفرنس میں مصروف رہے فارغ ہونے کے بعدایک دن میںاور شاہ زیب نے کئی گھنٹے مسلسل حمایت علی شاعر صاحب کا گھر ڈھونڈتے رہے مگرہمیں ان کا گھر نہ مل سکا پھردوسرے دن صبح 9بجے ہی ہم گھر سے نکلے اور ان کا گھر تلاش کرنے میں لگ گئے کافی تلاش کے بعد کہیں سے پتہ چلا کی موصوف پاکستان سے ہجرت کرگئے ہیں جب کہ ’اقدار ‘ اور’شاعر‘ ممبئی میں ان کا موجودہ ایڈریس کراچی کا ہی شائع ہورہاتھا بحرحال دکھ اور رنج کی بات تھی کہ ہمیں ناکام واپس پنجاب گوجرانوالہ لوٹنا پڑا۔ اب گذشتہ ڈیڑھ دو دہائی سے میں یہاں برطانیہ میںمقیم ہوں لہذا اس سال ستمبر میں میں نے امریکہ اور کینیڈا جانے کا پروگرام بنایا اور حمایت علی شاعر صاحب سے ملاقات کے سلسلے میں ان کے بیٹے محترم اوجِ کمال (مدیر دنیائے ادب کراچی) سے اس سلسلے میں بات بھی ہوئی مگر شاید قسمت کو یہ منظور نہیں تھا اس لیے میں اپنے آپ میں بہت بے بس ولاچار محسوس کررہاہوں۔ یہ تحریر اور یہ سطور لکھتے ہوئے میرا دل اور روح پر بہت بوجھل ہیں خدا ان کے روح کو ٹھندی جگہ رکھے۔
حمایت علی شاعر 1926میں اورنگ آباد بھارت میں ایک فوجی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا پیدائشی نام حمایت طراب ہے۔حمایت علی نے پہلے افسانہ نگاری سے شروعات کی پھر انہوں نے شاعری کا رُخ کیا وہ 1950ء کے اوائل میں کراچی آکر ریڈیو پاکستان کا حصہ بنے۔ ریڈیو میں مختلف ذمہ داریاں انجام دینے کے ساتھ 60ء کے عشرے میں انہوں نے پاکستان کی فلمی دنیا میں بطور گیت کار قدم رکھا اوربہت سے ایوارڈ حاصل کیے تھے۔2002ء میں حکومت ِ پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس دیا گیا۔ حمایت علی شاعر کے کئی تحقیقی کارناموں میں اردو ادب میں غزل کے آغاز سے لے کر عصرحاضر تک غزل کے بدلتے اسلوب اور روایات کے ساتھ ساتھ شعرائے کرام کے انداز پر تفصیلی روشنی ڈالنا بھی شامل ہےآپ نے جدید اردو شاعری میں ’’ثلاثی‘‘ کے فن کو ایجاد کیا۔آپ نے پی ایچ ڈی کے سلسلے میں اپنا مقالہ ’’پاکستان میں اردو ڈراما‘‘، سندھ یونیورسٹی (حیدر آباد) سے جمع کروایا۔ نہایت عالم فاضل شاعر۔آپ کے ڈراموں کا مجموعہ ’’فاصلے‘‘ کے عنوان سے طبع ہوا۔آپ کی ایک اور تصنیف ’’شکست کی آواز‘‘ میں منظوم ڈرامے شام ہیں حمایت علی شاعر سندھ یونیورسٹی میں درس و تدریس سے وابستہ رہے اور رٹائرمنٹ کے بعد ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے، بعد ازاں امریکہ، کینڈا چلے گئے اور زندگی کا باقی حصہ وہیں مقیم رہے۔1950میں آپ کا شعری مجموعہ ’’گھن گھرج‘‘ بھارت سے شائع ہوا۔ آپ 9عدد شعری مجموعوں کے خالق ہیں،ان میں سے واحد گیتوں کا مجموعہ ’’سرگم‘‘ ہے۔دیگر مجموعوں میں ’’آگ میں پھول‘‘ ’’مٹی کا قرض‘‘،’’تشنگی کا سفر‘‘ اور ’’ہارون کی آواز‘‘ شامل ہیں۔حمایت علی شاعر نے اردو کے مختلف شعرأکا انتخاب ’’دودِ چراغِ محفل‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔شیخ ایاز کے بارے میں ایک جامع تحقیق’’شیخ ایاز‘‘ کے عنوان سے مرتب کی جو اسی عنوان سے شائع ہوئی۔1979میں آپ کی دوسری تحقیق ’’اردو نعتیہ شاعری کے 700سال‘‘ ہندوستان سے شائع ہوئی۔ ’’برزخ‘‘ آپ کے نثری ڈراموں پر مبنی کتاب کا نام ہےشعر و شاعری کے علاوہ آپ صحافت، ادارت۔ تدریس، فلمسازی،ہدایت کاری اور نغمہ نگاری سے بھی منسلک رہے۔آپ نے حیدر آباد سندھ میں دو اخباروں میں بھی ملازمت کی جن کے نام ’’جناح‘‘ اور ’’منزل‘‘ تھے۔ ساتھ ہی آپ نے حیدر آباد سندھ میں ’’ارژنگ‘‘ کے نام سے ایک ثقافتی ادارہ بھی قائم کیا تھا۔ٹیلی ویژن پر ان کے کئی تحقیقی پروگرام پیش کئے جا چکے ہیں،جن میں پانچ سو سالہ علاقائی زبانوں کے شعرا کا اردو کلام خوشبو کا سفر،اردو نعتیہ شاعری کے 700سال پر ترتیب دیا گیا پروگرام عقیدت کا سفر،احتجاجی شاعری کے 40 سال پر ترتیب دیا گیا پروگرام لب آزاد،پانچ سو سالہ سندھی شعرا کا اردو کلام محبتوں کے سفیراور تحریک آزادی میں اردو شاعری کا حصہ نشید آزادی کے نام سر فہرست ہیں۔حمایت علی شاعر نے دو فلمیں ’’نوری‘‘ اور ’’گڑیا‘‘ بھی بنائیں اور فلم ’’آنچل‘‘ اور ’’دامن‘‘ کیلئے نغمہ نگاری پر آپ کو ’’نگار ایوارڈز‘‘ بھی دئیے گئے۔دیگر فلموں میں’ جب سے دیکھا ہے تمہیں، دل نے تجھے مان لیا، دامن،اک تیرا سہارا، خاموش رہو، کنیز، میرے محبوب، تصویر، کھلونا، درد دل اور نائلہ کے نام سر فہرست ہیں۔ انھوں نے ایک فلم لوری بھی پروڈیوس کی تھی جو اپنے وقت کی کامیاب ترین فلم تھی ان کے ہمیشہ زندہ رہنے والے منتخب نغمے:جب رات ڈھلی، تم یاد آئے،اک نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ،نہ چھڑاسکوگے دامن،حسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں،خداوندایہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینہ میں،نوازش کرم، شکریہ مہربانی جیسے گیت شامل ہیں ابھی اور بھی بہت کچھ ہے ان کے بارے میں کہنے کیلئے لیکن کیا کیا جائے جون ایلیاکے اس شعر کیساتھ اپنی تحریر تمام کرتا ہوں۔
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
تازہ ترین