شاہ ولی اللہ
کراچی میں 1960 تک بھارت سے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جاری تھا اور آبادی میں اضافے کے تناسب سے بستیاں سکڑتی جا رہی تھیں، اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے شہر میں مختلف بستیاں آباد کرنے کا کام شروع ہوگیا تھا، ایسی ہی ایک بستی شمالی ناظم آباد سے ملحقہ بنائی گئی، اس بستی کو نارتھ کراچی ٹاؤن شپ کہا جاتا ہے لیاری ندی اور منگھوپیرکے پہاڑوں میں گھری ہوئی ، اس بستی کا باقاعدہ سنگ بنیاد سابق صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ہاتھوں 5 نومبر 1961 کو سخی حسن چورنگی کے نزدیک رکھا گیا تھا۔ سنگ بنیاد کا یہ کتبہ کسی زمانے میں سرینا موبائل مارکیٹ کے سامنے ٹریفک پولیس چوکی کے برابر میں نصب تھا، تاہم پولیس چوکی کا مقام تبدیل ہوچکا ہے اور کتبے کا بھی وجود نہیں رہا۔نارتھ کراچی کا آغاز سخی حسن چورنگی سے اور اختتام سرجانی چورنگی پر ہوتا ہے ابتدا میں نارتھ کراچی ٹاؤن شپ کے انتظامی معاملات ضلع غربی سے چلائے جاتے تھے،تاہم یکم جولائی 1987 کو ضلع وسطی کے قیام کے بعد سے نارتھ کراچی ٹاؤن شپ کا انتظامی کنٹرول ضلع غربی سے وسطی کو منتقل ہوگیا تھا۔ ابتدا میں کراچی ڈوپلمنٹ اتھارٹی نے اس رہائشی منصوبے کو پانچ مرحلوں میں 14 برس کے عرصے میں 40 کروڑ کی لاگت سے مکمل کرنا تھا اور 5 لاکھ افراد کے لئے ایک لاکھ سنگل بیڈروم کے مکانات تیار کئے جانا تھے ابتدائی ایک سال کے دوران 7ہزار مکانات تعمیر کئے گئے ۔1962میں عبدالغفور نامی شخص کو سیکٹرالیون ڈی نارتھ کراچی کا مکان کھول کراس میں لے جایا گیا تھا اور سنہری چابی ان کے حوالے کی گئی تھی ۔اس مکان پر افتتاحی کتبہ آج بھی لگا ہوا ہے۔1998 کے سروے کے مطابق نارتھ کراچی ٹاؤن شپ کی آبادی6لاکھ 84ہزار183ہے، مگردرحقیقت چھ ہزار چارسو ایکڑ رقبے پر محیط ہے، اس آبادی میں 23 لاکھ سے زائد نفوس آباد ہیں، جبکہ آبادی کی مناسبت سے اس کی وسعت میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور آج نارتھ کراچی کا علاقہ شمال مشرق سے شروع ہوکر مختلف کالونیوں اور گوٹھوں کی صورت میں سرجانی ٹاؤن تک پھیلا ہوا ہے۔ اللہ والی چورنگی سے جنوب میں شفیق موڑ تک جاتا ہے اسی طرح ایک کلومیٹر سے دوسری سڑک اسے کالے اسکول سے یوپی موڑ کے راستے نارتھ کراچی کی مرکزی شاہراہ سے سخی حسن چورنگی سے ملاتی ہے۔ نارتھ کراچی اللہ والی چورنگی سے مغرب کی سمت حب ڈیم روڈ اور ہمدرد یونیورسٹی کے راستے بلوچستان کے علاقے میں داخل ہوجاتے ہیں، جبکہ یہ شاہراہ مشرق کی جانب احسن آباد اور گلشن معمار سے ہوتی ہوئی سپرہائی وے سے مل جاتی ہے قیام پاکستان کے بعد شہروں میں میونسپل کمیٹیاں اور کنٹونمنٹ بورڈ بنائے گئے، جبکہ دیہات کےلئے ضلعی بورڈ بنائے گئے، اس کے علاوہ دیہات میں پنجایت سسٹم بھی لاگو تھا ۔ اسی طرح نارتھ کراچی ٹاؤن شپ میں میونسپل کمیٹیاں اور پنچایت سسٹم کے تحت بلدیاتی نمائندوں کا تقرر کیا گیا تھا ۔ ایوب خان کے دورحکومت میں وارڈز کی سطح پر بنیادی جمہوریت یا بیسک ڈیمو کریسی سسٹم کے تحت یونین کمیٹیاں بنائی گئی تھیں، جنہیں بی ڈی ممبر چلاتے تھے جو مقامی طور پر منتخب کیا جاتا تھا یہ علاقہ مختلف کالونیوں،سیکٹرزاور گوٹھوں پر مشتمل ہے اور ایک وسیع عریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے نارتھ کراچی ٹاؤن شپ، جس کو یہاں کے باسیوں نے اپنے طور پر دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے
1970 میں نارتھ کراچی ٹاؤن شپ میں فراہمی و نکاسی آب کا نظام ادارہ ترقیات کراچی کے زیرانتظام تھا بعد میں یہ ذمہ داری واٹر بورڈ نے سنبھال لی۔ یہاں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت چوڑی گلیاں اور سڑکیں رکھی گئیں تھیں، اسی طرح ہرسیکٹر میں روزمرہ کی اشیاء کی خریدوفروخت کے لئے مارکیٹں بنائی گئیں اوران کے ساتھ دو منزلہ گھر تعمیر کئے گئے تھے ۔ ان مارکیٹوں کو لال ، کالی اور پیلی کا نام دیا گیا تھا ۔ یہاں کمیونٹی سینٹر بھی بنائے گئے تھے اس آبادی میں مختلف قومیتوں کے افراد آباد ہیں، جن میں مہاجر، سندھی، پنجابی، گجراتی، میمن، کشمیری، پختون، بلوچ، بوہری اور اسماعیلی کمیونٹی شامل ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت سے ہجرت کرکے آنے والی گودھرا کمیونٹی نے نارتھ کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ انہیں پرانا حاجی کیمپ سے لاکرآباد کیا گیا تھا۔ ان کا سب سے بڑا مرکز گودھرا کالونی ہے، جہاں اس کمیونٹی کے کم و بیش 80 ہزار نفوس آباد ہیں۔
مولانا سید محمد حسن نقشبندی مرید و خلیفہ حضرت شاہ مظہر اللہ دہلوی نے غالب اکیڈمی نارتھ کراچی کی بنیاد رکھی تھی۔
نارتھ کراچی کا علاقہ دو صنعتی زونز سے منسلک ہے80 کی دہائی میں کھاد بنانے کے پہلے پلانٹ کا افتتاح کیا تھا ، یہ پلانٹ نارتھ کراچی انڈسٹریل ایریا میں صبا سینما اور نیو کراچی قبرستان سے متصل تھا ۔ اس پلانٹ میں کراچی بھر سے کوڑا کرکٹ اور کچرے اٹھا کر لایا جاتا تھا ، جس سے کھاد تیار کی جاتی تھی ، تاہم چند برس بعد ہی یہ پلانٹ بند ہوگیا ۔ یہاں طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے اللہ والی چورنگی اور یوپی سوسائٹی میں سندھ گورنمنٹ کے دو اسپتال ، سوشل سکیورٹی اسپتال اور ایک چلڈرن ہسپتال ، جب کہ مختلف برادریوں کے پانچ رفاہی اور تقریباً نصف درجن نجی اسپتال قائم ہیں۔ پہلا سرکاری شفاخانہ سندھ گورنمنٹ اسپتال نیو کراچی سیکٹر الیون آئی میں قائم کیا گیا تھا۔ نارتھ کراچی میں بعض علاقوں کے نام انڈا موڑ، کریلا موڑ اور ناگن چورنگی ہیں۔ نارتھ کراچی سیکٹر فائیو جی کے نزدیک انڈسٹریل ایریا سے ملحقہ قدیم قبرستان واقع تھا جبکہ دوسرا قبرستان سیکٹر فائیو اے تھری میں ،تیسرا محمد شاہ قبرستان سیکٹر سیون ڈی میں ہے ۔ نارتھ کراچی کا چوتھا قبرستان سخی حسن سیکٹر 14 اے نارتھ کراچی میں بنایا گیا ۔ معروف شعراء رئیس امروہوی ، جون ایلیا، سید محمد تقی ، بہزاد لکھنوی ،صبا اکبر آبادی، تسلیم فاضلی، معروف سیاستدان پروفیسر غفوراحمد، معروف مصوراقبال مہدی، نامورگلوکار احمد رشدی اورنغمہ نگار فیض ہاشمی سمیت کئی نامور ہستیاں اسی وادی خموشاں کی مکین ہیں ۔ پچھلے 20 برسوںمیں اس بستی کا نقشہ ہی بدل گیا ، جو نارتھ کراچی ہم نے اپنے بچپن میں دیکھا تھا اب اس کا نام و نشان باقی نہ رہا ، یہاں کی چوڑی کشادہ سڑکیں ، گلیاں ہر علاقے میں کھیل کے میدان ، پارک اور ترتیب سے تعمیر کئے گئے مکانات کا حسن برباد ہوگیا ۔
محبت ، اپنائیت اور خلوص کا زمانہ تھا ۔ لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد کی خبررکھتے اور خوشیاں بانٹتے تھے ۔ ایک چراغ کی لوسے کئی گھروں میں دیپ جلا کرتے تھے ۔ سمجھ نہیں آتا حالات کی اس ستم ظریفی کو کیا نام دوں ۔ کیا لوگ بدل گئے یا ان کی ترجیحات میں انسانیت باقی نہیں رہی۔
کتاب،’’ نارتھ کراچی نصف صدی کا قصہ‘‘ سے انتخاب ،مصنف: شاہ ولی اللہ جنیدی