• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سائنس اور ٹیکنالوجی کا کینوس وسیع سے وسیع تر کرنے کے لیے ماہرین دن ،رات مختلف سمتوں میں کا م کررہے ہیں ۔اس ضمن میں متعدد ممالک کے نو جوان بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں ۔پاکستانی نوجوان بھی اس میدان میں اپنی صلاحیتوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں ۔ہمارے ملک میں بجلی کے بحران کی وجہ سے ہر دوسرا شخص پریشان نظر آتا ہے ۔اس پر یشا نی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک نجی یونیورسٹی کے طلبا نے مل کر بجلی پیدا کرنے کا ایک پروجیکٹ بنایا ہے۔

انہوں نے انسانی قدموں کے دبائو سے بجلی پیدا کرنے کے لیےانرجی ہارویسٹنگ کے نام سے ایک سسٹم تیارکیاہے۔اس پر جیسے ہی کوئی انسان قدم رکھتاہے تودباو پڑتے ہی بجلی پیدا ہونے لگتی ہے۔اس بجلی کو ہم گاڑی اور یوپی ایس کی بیٹری چارج کرنے کے لیے بآسانی استعمال کر سکتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں ہم نے اس ٹیم کے اراکین سے گفتگو کی ،جس کی تفصیل نذر ِقارئین ہے ۔

س:اپنی ٹیم کے حوالے سے کچھ بتا ئیں۔یہ کتنے افراد پر مشتمل ہے ؟

ج:ہمارےٹیم کے اراکین کا تعلق ایک نجی یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے ہے۔یہ ٹیم 3 افراد پر مشتمل ہے ۔غالب ندیم ،حافظ ولید اور علی اکبر تینوں انجنئیرنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ہم تینوں بی ای لیکٹرونکس کے طالب علم ہیں۔ فائنل ائیر میں ایک پروجیکٹ بنانا ہوتا ہے ،جس کے لیے ہماری ٹیم نے سوچا کہ کیوں نہ کچھ الگ کیا جائے جس سے آنے والے وقتوں میں ہماری قو م کو بھی فائدہ ہو۔لہذاہم نے ایسا پر وجیکٹ بنانے کا ارادہ کیاجس کے ذریعے انسانی قدموں سے بجلی پید اکی جاسکے ۔ ٹیم ہیڈ غالب ندیم نے اس پروجیکٹ کو ’’انرجی ہارویسٹنگ ‘‘ کا نام دیا ۔فائنل ائیرکے پروجیکٹ کو پاکستان انجنیئر نگ کو نسل بھی چیک کرتی ہے کہ آیا پروجیکٹ اس قابل ہے کہ اسےمارکیٹ میں متعارف کرایا جا سکے ۔ہمارا یہ پروجیکٹ مارکیٹ میں متعارف کرانےکے قابل تو ہے ،مگر اس کے لیے ہمیں بہت بڑے سر مائے کی ضرورت ہے ۔

س:کسی اور شعبے میں پر وجیکٹ بنانے کا خیال کیوں نہیں آیا،بجلی ہی کیوں ؟

ج:ا سے شروع کرنے کا خیال ملک بھر میں بجلی کے بحران اور صورت ِحال کو دیکھ کر آیا ۔بجلی کے نرخوں میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔پہلے صورت ِحال اس قدر خراب ہو گئی تھی کہ بیرونی ممالک سے بجلی خریدنی پڑ رہی تھی ۔ہمارا مقصد یہ تھا کہ کچھ ایسا کیا جائے کہ اس سے بجلی کم نرخ پر حاصل ہوسکے اور ملک کو زیادہ سے زیاہ فائدہ ہو ۔2016 ء میں چین میں تحقیق جاری تھی کہ سڑکوں پرایسا سسٹم نصب کیا جائے جس کے ذریعے انسانوں کے چلنے سے بجلی پیدا ہو ،کیوں کہ اُس وقت تک روس میں اس کام کے لیے ہائی وے بن چکا تھا ۔ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ہم لوگ بھی کچھ اس طر ح کا کام کریں ۔انرجی ہارویسٹنگ کے لیےچین اور دیگر ممالک کا phenomena ایک جیسا ہے لیکن ٹیکنالوجی سب کی مختلف ہے ۔

س:اس ضمن میں کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ؟

ج:ابتدا میں کافی مالی پریشانی کا سامان کرنا پڑا ، کیوں کہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ آسانی سے پر وجیکٹ مکمل کر پاتے ۔اہم مسئلہ یہ تھا کہ ابتدا میں کوئی آپ کو فنڈ فراہم نہیں کرتا۔ہمارے اساتذہ تک نے کہہ دیا تھا کہ یہ تھوڑا رسکی کام ہے اوراس کے لیے آپ کو کوئی بھی سپورٹ نہیں کرے گا ۔بہر حال ہم تینوں نے خودہی رقم کا انتظا م کرکے پروجیکٹ کا آعاز کیا ۔جب اسے بنانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو بعض اوقات ہمت جواب دے گئی کہ بس اب مزید اس پر کام نہیں کرتے، اتنے پیسے لگ چکے ہیں اور کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں ہو رہا ۔علاوہ ازیں ہمیں اس میں ایمپئر (ampere) جنریٹ کرنے میں کافی مشکل ہوئی تھی۔ایک سال کی محنت کے بعد کہیں جا کر صحیح سے ایمپئر جنریٹ کرنے میں کام یابی حاصل ہوئی ۔ وولیٹج تو کافی تھے،لیکن چارجنگ کے لیے ایمپئربہت ضروری ہوتےہیں ،کیوں کہ اس کے بغیر بیٹری چارج نہیں ہوتی۔

س:پروجیکٹ پر کُل کتنی لاگت آئی ؟

ج:مکمل لاگت 1 لاکھ 25 ہزار روپے آئی ہے۔ یہ اخراجات ہم تینوںنے ہی برداشت کیے ۔

س:بجلی پیدا کرنے والے ان ٹائلز کو کس طر ح بنایا گیا ہے اور انہیں تیار کرنے میں کتنا وقت لگا ؟

ج: ان ٹائلز میں اوپر کی طر ف مصنوعی گھاس لگائی گئی ہے۔اس کے نیچے لکڑی کے تختے لگائے ہیں۔ان تختوں کے نیچے ربر کی دوپلیٹیں ہیں جن کے بیچ میں  سرکٹ نصب کیا گیا ہے ۔ان سرکٹس میں کرسٹل کے کوارٹز (Quartz) کا چورا کرکے ایک فلور بنایا گیا ہے۔ یہ وہ کوارٹز ہیں جو گھڑیوں میں استعمال ہوتے ہیں ۔ان کی خاصیت یہ ہے کہ ان پر جیسے ہی دباو پڑتا ہے یہ بجلی بنانے لگتے ہیں۔ یہ پورا سسٹم مکینیکل انرجی کو الیکٹریکل انرجی میں تبدیل کرے گا،جس طر ح سولر پینل سورج کی روشنی کو الیکٹریکل انرجی میں تبدیل کرتے ہیں ۔بالکل اسی طر ح یہ مکینیکل انرجی کو الیکٹریکل انرجی میں تبدیل کرتے ہیں ۔اس ہارویسٹنگ انرجی پروجیکٹ میں سب سے نیچے لکڑی کا ایک بیس بنایا گیا ہے ،جس کے نیچے مزید ایک سرکٹ لگایا گیا ہے ۔آخر میں جو سر کٹ لگا یا گیا ہےاُس کا کام دباو سے پید ا ہونے والی بجلی کو قابل ِ استعمال بنانا ہے ،کیوں کہ اس سے جو بجلی پیدا ہوتی ہے وہ براہ راست استعمال نہیں ہو سکتی۔اسی لیےپہلے اسےڈی سی (direct current ) میں تبدیل کرتے ہیںتا کہ بیٹری چارج ہو سکے اور پھر بجلی کو بآسانی استعمال کیا جاسکے ۔یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچا نے میں 2 سال لگے ۔

س: ان ٹائلز کو کہاں نصب کیا گیا ہے اوران سے ایک دفعہ میں کتنی بجلی پید اہوتی ہے ؟

ج:فی الحا ل تو اسے کہیں بھی نصب نہیں کیا گیا ہےجس کی سب سے بڑی وجہ فنڈکی کمی ہے کیوں کہ نہیں مختلف مقامات پر لگانے کے لیے کافی بھاری رقم چاہیے۔ ایک نجی یونیو رسٹی کا ایک ادارہ ہے NIC،اس نے حال ہی میں ہمیں انکیوبیشن (Incubation) دینے کا ارادہ کیا ہے۔ابھی اس حوالے سے گفت و شنید جاری ہے ۔ اُمید ہے کہ بہت جلد اس مقصد میں کام یاب ہو جائیں گے۔ وہ ہمیں مالی طور پر سپورٹ کریںگے توہم اسے مزید بہتر کرکے تجارتی سطح پر لگا سکیں گے ۔ اس کے علاوہ کراچی میں قائم ایک تفریح گاہ میں بھی اسے لگانے کی بات ہوئی تھی،مگر کچھ مسائل کی وجہ سے وہاں پر نہیں لگا سکے ۔ یہ ٹائلز زیادہ آمد ورفت والی جگہ پر لگانے سے بہتر نتائج ملتے ہیں ،کیوں کہ ن پر جتنے زیادہ قدم پڑیں گے اتنی ہی زیادہ بجلی پیدا ہو گی ۔اس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں موسم کی کوئی قید نہیں ہے کہ سورج کی روشنی ہوگی تو یہ کام کرے گا جیسا کہ سولر پینل میںہوتا ہے ۔ ہم نے نمونے میں مصنوعی گھاس کااستعمال کیا ہے،لیکن اس کی جگہ کوئی بھی ٹھوس شئے(لکڑی ،ٹائلز ) استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ہمارا گھاس استعمال کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ یہ ماحول دوست ہواور کسی قسم کی آلودگی کا سبب نہ بنے ۔ہم اسے عوامی مقامات پر لگائیںگے تو کسی ٹھوس شئے پر بنا کے لگائیں گے ۔مثال کے طور پر ٹائلزیا لکڑی کا فرش بنائیں گے۔یہ تختہ (plank) ایک وقت میں 70 واٹ بجلی پیدا کرتا ہے جو ایک بیٹری کو اُڑانےکےلیے کافی ہے ۔ اس لیے ہم نے اس کی طاقت کم کرکے 40 واٹ تک کردی ہے ۔40 واٹ سےگاڑی اور یو پی ایس کی بیٹری با آسانی چارج کی جاسکتی ہے۔

س:یہ ماحول کے لیے نقصان دہ تو نہیں ہے ؟

ج:اس کی سب سے خاص بات یہی ہے کہ یہ ماحول دوست ہے۔اس کے ذریعے کسی بھی قسم کی آلودگی نہیں ہوگی ۔ تھرمل پاور پلانٹ،جہاں سے گھروں کو بجلی سپلائی کی جاتی ہے، وہاں ہر طرح کی آلودگی ہوتی ہے (زمینی ،ہوائی،صوتی آلودگی اور پانی کی آلودگی )،لیکن اس میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔

س:ایک ٹائل کاسائز کیا ہے؟

ج: اس کا سائز بہت زیادہ بڑا نہیں بنا یا گیاہے ،کیوں کہ یہ جتنا چھوٹا ہوگا اتنی زیادہ بجلی پیدا کرے گا ،لیکن ہم اس کا سائز بہت زیادہ کم نہیں کرسکتے ۔اس کے سائز کے لیے ہم نے سات، آٹھ طر یقے آزمائے، لیکن ایک جوتے کے برابر سائز میں اس کی کار کردگی زیادہ بہتر دکھائی دی ۔اسی لیے ہم نے اس کا فائنل سائز ایک جوتے کے برابر ہی تیار کیاہے ۔ان کا کام کرنے کا طریقہ یہ ہےکہ انہیں بس دباوکی ضرورت ہوتی ہے جیسے ہی ان پر دباوپڑتا ہے، یہ وزن کو بجلی میں تبدیل کر دیتے ہیں۔

س:آپ کے خیال میںاس طر ح کے پروجیکٹ پر کام کرکے ہم ٹیکنالوجی کی دنیا میں کتنی ترقی کرسکتے ہیں ؟

ج: ہم اس طر ح کے مزید پروجیکٹس بنا کر ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنے ملک کا نام روشن کرسکتے ہیں ،جس طر ح چین اور دیگر ممالک متعدد اقسام کی ٹیکنالوجیزکے ذریعےحیران کن چیزیں ایجاد کررہے ہیں، اسی طر ح ہم بھی کر سکتے ہیں ۔ اگر ہماری حکومت اس طر ح کے پروجیکٹس بنانے میں لوگوں کا ساتھ دے تو ہم بہت جلد ٹیکنالوجی کی دنیا میں چین سے بھی آگے نکل سکتے ہیں ۔

س:اس پروجیکٹ کو مستقبل میں مزید کس طر ح بہتر بنانے کا ارادہ ہے ؟

ج: ہماری کوشش ہے کہ اسے مزید اچھے معیار کا بنا کرکراچی کے مختلف مقامات پر نصب کیا جائےتا کہ اس سے زیادہ سے زیادہ بجلی حاصل کی جاسکے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین