سچی بات یہ ہے کہ اگر سیاستدانوں کی کرپشن ختم کر کے معاشی اور سماجی نظام کے سدھار کا مفروضہ منطقی اور تاریخی شہادتوں کے پہلو سے تھوڑا بھی قابل یقین ہوتا تو ہم خوش فہموں کی قطار میں سب سے آگے کھڑے ہوتے۔ بقول مرزا غالب ’’کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا‘‘۔ لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ جب ’تعمیر‘ میں ہی خرابی کی صورت ہو تو چھوٹی موٹی مرمت سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ہمارا مسئلہ تو یہ ہے ہم کیکر بو کر شہتوت کھانا چاہتے ہیں۔ بقول بابا فرید:
لوڑے داخ بجوڑیاں، ککر بیجے جٹ
ہنڈھے ان کتائے دا، پیدھا لوڑے پٹ
(جاٹ بوتا تو کیکر ہے اور امید رکھتا ہے کہ اسے باجوڑ کے علاقے جیسے انگور ملیں گے۔ وہ ساری عمر اون کاتتا پھرتا ہے اور خواہش ریشم پہنے کی لئے پھرتا ہے)۔
ہمیں شاید ستر سال میں مکمل فراموش ہو چکا ہے کہ ہم نے مفت خوروں کا ایک معاشرہ پیدا کیا تھا اور اب ہم اس سے ذمہ داری اور محنت کی کمائی کھانے کا تقاضا کر رہے ہیں۔ تقسیم کے نتیجے میں تمام ہندو اور سکھ آج کے پاکستان کے شہر خالی کر کے ہندوستان چلے گئے تھے۔ یہ بھی زیر نظر رہے کہ 1947تک تمام شہروں کے کاروبار اور جائیدادیں ہندوئوں اور سکھوں کی ہوا کرتی تھیں۔ جب یہ لوگ شہر خالی کر کے چلے گئے تو اس پر راتوں رات ان لوگوں کا قبضہ ہو گیا جو کہ ان بازاروں اور حویلیوں کے مالک بننے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ غرضیکہ بازار، منڈیاں اور رہائشی مکانات مفت میں حاصل ہو گئے: شاید ان کے بنانے والوں نے یہ سب کچھ صدیوں میں حاصل کیا تھا۔
شاید اس کا تاریخی جواز یہی تھا کہ اس علاقے میں ہندومت کے استحصالی ذات پات کے نظام سے بچنے کے لئے نچلے طبقات نے اسلام قبول کیا تھا لیکن ان کے لئے ’نمرود‘ کی خدائی چلتی رہی اور ان کا تبدیلی مذہب کے بعد بھی ’بھلا‘ نہ ہوا۔ مسلمان حکمران بھی اونچی ذات کے متمول ہندوئوں کو ساتھ ملا کر حکومت کرتے رہے اور غریب مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا گیا جو انگریز کے زمانے میں عیسائی چوہڑوں کے ساتھ تھا۔ شاید یہ تاریخ کا انتقام تھا کہ ہزاروں سا ل کے افتادگان خاک نے ایک دن پانسہ پلٹنے سے اوپر آنا تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بنا کسی محنت کے نئے مالکوں نے شہروں پر قبضہ کر لیا۔ راتوں رات بذریعہ لاٹری کاروباروں اور اعلیٰ رہائش کے مالک بننے والے اصول و قوانین اور اخلاقیات سے ناواقف تھے اور ان کو اس کی پروا بھی نہیں تھی۔ ہماری اجتماعی نفسیات کی یہی بنیاد تھی جس پر پورا معاشی اور سماجی نظام ترتیب پایا۔
پاکستان کے سرمایہ دار طبقے کا ارتقا بھی اس سے مختلف نہیں تھا۔ ملک کے وجود میں آنے تک اس علاقے کے مسلمانوں میں صنعتی سرمایہ داری کی کوئی روایت نہیں تھی۔ پاکستان میں زیادہ تر صنعتکار بننے والے تقسیم سے پہلے تاجر پیشہ لوگ تھے۔ تاجر کی مخصوص نفسیات یہ ہے کہ وہ فوری منافع کا خواہاں ہوتا ہے:ادھر مال لیا اُدھر بیچا اور منافع کھرا کر لیا۔ اسکے الٹ صنعت کار طویل المیعاد منصوبہ بندی کرتا ہے۔ اس کو پانچ چھ سال کارخانہ تعمیر کرنےکیلئے چاہئیں، پھر وہ کئی سالوں میں اپنی لاگت پوری کرتا ہے اور تب کافی عرصہ کے بعد وہ منافع کمانا شروع ہوتا ہے اور پھر زندگی بھر اس سے فیض یاب ہوتا رہتا ہے چونکہ پاکستان میں صنعتی سرمایہ داری کلچر موجود ہی نہیں تھا اسلئے نئے کارخانہ داروں نے فوراً ریاست کے نیچے پناہ لیتے ہوئے عوام کے مال کو ادھر سے ادھر کرتے ہوئے اپنی کاروباری سلطنتیں تعمیر کیں۔
اسی سلسلے میں پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن (PIDC)بنی جس نے کارخانے بناکر سرمایہ داروں کے حوالے کئے۔ یہی نہیں بلکہ نئے ابھرتے ہوئے سرمایہ دار نے ریاست سے ہر طرح کی سبسڈیاں بھی لیں، بجلی اور ٹیکس کی چوری بھی کی اور ایسے قوانین بنوائے جن کی وجہ سے اسے منڈی میں کسی طرح کے مقابلے کا بھی سامنا نہ کرنا پڑے۔ آہستہ آہستہ وہ عالمی مقابلے سے محفوظ من مانی شرح منافع کا عادی ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کا ایک بھی سرمایہ دار عالمی سطح پر کاروبار کرنے کے قابل نہ ہوا: اس کے الٹ ہندوستانی سرمایہ دار امریکہ اور یورپ کی منڈیوں میں نہ صرف مقابلہ کر رہا ہے بلکہ کچھ شعبوں (اسٹیل، ٹریکٹر وغیرہ) میں غلبہ بھی حاصل کر رہا ہے۔ پاکستان کے امیر ترین سرمایہ دار کی بڑی سے بڑی یہ چھلانگ ہے کہ وہ برطانیہ میں ہوٹل خرید لے۔ ہاں پاکستان کے اندر کچھ شعبوں (ٹرکوں کے ذریعے بار برداری) میں چھوٹا سرمایہ دار ابھرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہاں ریاست کے طاقتور اداروں نے کاروبار پر قبضہ کرکے اسے باہر نکال کیا۔
پاکستان کا سرمایہ دار صنعتی میدان کی غیر یقینی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے: وہ جب بھی سرمایہ کاری کرتا ہے ریاست کی چھتر چھاؤں میں کرتا ہے۔ اس پس منظر کو سامنے رکھیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب پاکستان میں صنعتی پیداوار کرنے والے موجود ہی نہیں ہیں تو پھر عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے ڈرامے کروانا محض افسروں کا سیر سپاٹے کے پروگراموں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
تقسیم سے قبل کا سرمایہ دار طبقہ اور اشرافیہ کا ایک حصہ بالغ ہو چکا تھا: وہ اسپتال، کالج اور لائبریریاں بنانے جیسے عوامی سہولتوں کے پروگراموں کی طرف متوجہ ہو چکا تھا لیکن مفت خور اشرافیہ اور ریاست کا پروردہ سرمایہ دار طبقہ اس طرح کے کاموں میں پیسہ ضائع کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ البتہ جب سے اسے پتا چلا ہے کہ تعلیم اور صحت جیسی سہولتیں مہیا کر کے منافع کمایا جا سکتا ہے تو پرائیویٹ یونیورسٹیوں اور اسپتالوں کی بھرمار ہو گئی ہے لیکن شاید بھولے بھالے مرزا غالب کو اپنے شعر کے یہ معنی معلوم نہیں تھے اسی لئے وہ دوسرے مصرع میں ’دہقان‘ کو یاد کرنے لگے’’ہیولی برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا‘‘۔ مرزا کے دہقان تو خرمن پر برق گرنے کے امکانات کے باوجود اپنا خون گرم رکھنے کی استطاعت رکھتا تھا لیکن ہماری مفت خور اشرافیہ اور ریاست کی گود کی پناہ کا عادی سرمایہ دار نہیں! اسی سلسلے میں مرزا کا ایک اور مصرع سن لیجئے:
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا