• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سائرہ فاروق

انہیں کی جدوجہد ،جوش و جذبے کی بدولت جنگ ِآزادی میں کام یابی حاصل ہوئی

قیام پاکستان کا قیام اس طویل جدوجہد کا ثمر ہے جو مسلمانانِ برصغیر نے اپنے علیحدہ قومی تشخص کی حفاظت کے لیے شروع کی اور اس کوشش میں خواتین کا کردار بھی نہایت اہم رہا

انگریزی سامراج سے چھٹکارا دلوانے اور سیاسی شعور خواتین میں اجاگر کرنے کے لیے جن خواتین نے تگ و دو کی، ان میں سر فہرست مادر ملت فاطمہ جناح،بیگم مولانا محمد علی جوہر،بیگم سلمٰی تصدق حسین،بیگم جہاں آراء شاہنواز بیگم،بیگم رعنا لیاقت علی سمیت متعدد عظیم خواتین شامل تھیں۔ یہ وہ خواتین تھیں جو بیسویں صدی میں عملی، معاشرتی، تعلیمی، سیاسی، میدان کی جانباز سرگرم اور نڈر کارکن رہیں ۔ یہ وہ خواتین تھیں جنہوں نے عام، گھریلو عورت میں سیاسی شعور نہ صرف بیدار کیا بلکہ علیحدہ ملی تشخص کی تحریک کا جذبہ بھی اُجاگر کیا تاکہ خواتین گھروں سے نکل کر تحریک پاکستان کی جدوجہد میں عملی طاقت بن کر ابھریں۔ یہی وہ طاقت تھی، جس نے خواتین کو اتنا بے خوف ونڈر بنا دیا کہ وہ کسی سامراج یا ہندو بنیے سے نہ ڈریں بلکہ بے خوف و خطر حب الوطنی کے جزبے سے سرشار عظیم مقصد کی بارآوری کے لیے متحد ہوئیں۔

تحریک پاکستان کی جدوجہد میں فاطمہ جناح نے قائد اعظم کے قدم بہ قدم ساتھ رہیں اور مسلم خواتین کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔ بیگم سلمیٰ تصدق نے مسلم لیگ کے شعبہ خواتین کے قیام کے بعد عام خواتین کو بھی مسلم لیگ کا رکن بنانے کے لیے فعال کردار ادا کیا۔ بیگم جہاں آرا شاہنواز نے تین گول میز کانفرنس میں شرکت کر کے مسلم خواتین کی نمائندگی کا حق ادا کیا۔ یہ وہی خواتین تھیں جنہوں نے سول نافرمانی کی تحریک میں اہم کردار ادا کر کے تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئیں ۔ سیکرٹریٹ پر مسلم لیگ کا جھنڈا لہرانے والی خاتون فاطمہ صغریٰ تحریک پاکستان کی فعال رکن تھیں اور ان کی عمر فقط 14 برس تھی۔ انہیں حراست میں لیا گیا، مگر اس باہمت خاتون نے ہمت نہ ہاری اور مسلم خواتین کو متحرک کرتی رہیں یہی وجہ ہے کہ خواتین لاٹھی چارج، آنسو گیس، حراست کی صعوبتوں سے گھبرائے بغیر بے خوف و خطر ہو کر پاکستان کے حصول کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں ۔پنجاب میں جب فسادات شروع ہوئے تو ریلیف کمیٹی کی سیکرٹری بیگم سلمیٰ تصدق تھیں ان فسادات میں خواتین نے جرات وہمت سے کام کیا۔ پنجاب میں تحریک پاکستان کا علم بلند کرنے والی خواتین میں بیگم گیتی آرا، بیگم سلمیٰ تصدق، بیگم شاہنواز کے نام نمایاں ہیں ان کے ساتھ ساتھ بنگالی خواتین بھی پیش پیش رہیں۔

بیگم شائستہ مسلم گرلز فیڈریشن تنظیم کی روح رواں تھیں اس زمانے میں نوجوان لڑکیوں کو منظم کرنا کوئی آسان نہ تھا، مگر اپنے اس دشوار مرحلے کے کسی مقام پر ہمت نہ ہاری اور ہندوستان بھر کی طالبات کو منظم کر کے ہی دم لیا یہ وہی طالبات تھیں جو تحریک پاکستان میں ہراول دستے کے طور پر سامنے آئیں اور قیام پاکستان کے لیے قابل فخر اور عہد آفرین کارنامے تاریخ میں رقم کیے۔1943 میں خواتین نیشنل گارڈ کی تقریب میں پانچ ہزار خواتین نے شرکت کی تو قائد نے خواتین کو مخاطب کر کے کہا کہ خواتین کو سپاہیوں کی طرح کام کرنا ہوگا تب جا کر ہم پاکستان حاصل کر سکیں گے۔سب سے زیادہ خواتین کو صوبہ سرحد میں منظم کرنا مشکل تھا کیوں کہ یہاں پردے کی سخت پابندی کی وجہ سے گھروں سے باہر آکر جلسے جلوس کا حصہ بننا انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا ،مگر قائد کی قیادت میں خواتین منظم ہوئیں بلکہ شہر شہر جلسے جلوس منعقد کرنے میں ان خواتین نے بڑی ہمت کا ثبوت دیا کہ مردوں کے بعد خواتین کا سرفروشی کے لیے کفن سر پر باندھے سرحد جیسے صوبے میں خواتین کا اٹھنا انگریزوں کے لیے پریشان کن بننے لگا، یہی وجہ ہے کہ ان کی طاقت کچلنے کے لیے انہیں زدکوب کیا جاتا، قیدوبند کی اذیتیں بھی دی گئیں مگر ان کا حوصلہ نہ ٹوٹا۔پنجاب کی فاطمہ کی طرح سرحد کی محترمہ سردار حیدر نے بھی سیکرٹیریٹ کا یونین جیک اتار کر مسلم لیگ کا جھنڈا بلند کیا۔ بالاحصار پل پر ریل گاڑی روکنے کے لیے خواتین پٹری پر لیٹ گئیں اور بے شمار زخمی بھی ہوئیں مگر زخموں کی پروا نہ کرتے ہوئے ریڈیو اسٹیشن پشاور پہنچ گئیں اور عمارت پر حملہ کر دیا، ان کے پاس ہتھیار نہ تھا فقط جزبہ تھا ،جس نے انگریزوں کو دن میں تارے دکھائے۔ریفرنڈم کا اعلان جب سرحد میں ہوا تو یہ خواتین ہی تھیں جنہوں نے گھر گھر جا کر لوگوں کو قیام پاکستان کا شعور دیا، حالاں کہ یہاں کانگریس کی وزارت تھی اور پاکستان کے لیے عام عوام کی رائے ہموار کرنا کوئی اتنا آسان کام نہ تھا، مگر خواتین نے اپنی سیاسی بصیرت، خردمندی، اور معاملہ فہمی سے عام عوام کی رائے پاکستان کے حق میں ہموار کرنے کے لیے کوشاں رہیں ، یہی وجہ ہے کہ 90 فی صدووٹ پاکستان کے حق میں پڑا، اور کانگریس کو منہ کی کھانی پڑی اور اس بات کا کریڈٹ سرحد کی خواتین کو جاتا ہے۔1935 ءکے ایکٹ کے مطابق مسلم خواتین کو ووٹ کا حق حاصل نہ تھا لیکن مسلم ویمن ونگ کی خواتین نے اس لاء کی بھرپور مزاحمت کی۔ تحریک پاکستان کے لیے قائد نے مسلم خواتین کارکن کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی، آپ اکثر کہا کرتے کہ قلم اور تلوار کے علاوہ تیسری طاقت بھی ہے اور وہ ہے خواتین! یہ قائد کی روشن خیالی ہی تھی کہ آپ نے خصوصی ہدایات جاری کی کہ ہر صوبے میں خواتین کمیٹی بنائی جائے، تاکہ خواتین سیاسی بیداری اور عملی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لے سکیں۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ خواتین کا سیاسی شعور اور عملی کردار جدوجہد آزادی میں کسی طور مردوں سے کم نہ تھا اور تحریک آزادی میں ان کے کارہائے نمایاں تاریخ کا نہ صرف حصہ بن گئے بلکہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے جو آج کی خواتین کے لیے مشعل راہ بھی ہیں۔

تازہ ترین