• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایمان صغیر

انسان طویل عرصے سے اس کوشش میں ہے کہ وہ ایسی روشنی کا اہتمام کرلے جس میںقدرتی سورج کی روشنی جیسی تمام صفات ہوں۔با الفاظ دیگر وہ مصنوعی سورج بنانا چاہتاہےتاکہ وہ جب اور جیسے چاہے اس سے قدرتی سور ج جیسی روشنی حاصل کرسکے۔مختلف ممالک کے سائنس دان اس ضمن میںکوششیں کرتے رہے ہیں،لیکن تاحال ان میں سے کسی کو بھی کام یابی حاصل نہیں ہوئی ۔ ایسی ہی ایک کوشش مارچ 2017کےاواخر میں جرمنی میں کی گئی۔

جرمن سائنس دانوں نے دنیا کا سب سے بڑا 'مصنو عی سورج چند سال قبل روشن کیا ۔انہیں توقع ہے کہ اس کی روشنی ماحول دوست ایندھن کی تیاری کے لیےاستعمال کی جاسکے گی۔یہ تجربہ جرمن شہر کولون کے مغرب میں19 میل دور واقع شہر ژیولِش میںکیا گیا ۔ یہ سورج 149 بڑےبڑےلیمپس(فلم پرو جیکٹراسپاٹ لائٹس)پر مشتمل ہے۔ماہرین کے مطابق اس تجربے کا بنیادی مقصد توانائی کے نئے ماحول دوست ذرائع تلاش کرنا ہے۔اس تجربے کو Synlight کا نام دیا گیا ہے۔

جرمن ایرواسپیس سینٹر ڈی ایل آر کے سائنس دان اس مصنوعی سورج کی تیز روشنی اور حرارت کے ساتھ تجربات کرکےیہ پتا لگانا چاہتے ہیں کہ سورج سے جو بے پناہ توانائی روشنی کی صورت میں زمین تک پہنچتی ہے، اُسے کیسے زیادہ مؤثر طریقے سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔اس مقصد کے لیے 149 بڑے بڑے لیمپس استعمال کر کے زمین پر آنے والی قدرتی سورج کی روشنی سے10 ہزار گنا تیز روشنی پیدا کی گئی۔جب تمام لیمپس نے روشنی کو ایک نقطےپر مرکوز کیا تو اْس وقت یہ آلات 3500 ڈگری سینٹی گریڈ درجۂ حرارت پیدا کررہے تھے ۔تجربہ کرنے والے سائنس دانوں کے مطابق جب یہ مصنوعی سورج روشن کیا جاتا ہےاگراْس وقت کوئی شخص تجربہ گاہ میں چلا جائے تو فوراً جل جائے گا۔

اس تحقیق سے وابستہ ماہرین کے مطابق اس تجربے کا مقصد قدرتی سورج کی روشنی کو ہائیڈروجن ایندھن کی تیاری کے لیے استعمال کرنا ہے ۔ یاد رہے کہ سولر پاور اسٹیشنزمیں شیشوں کو سورج کی روشنی، پانی کی جانب مرکوز کرنے کےلیے استعمال کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں پانی بخارات بن کر اڑتا ہے۔یہ بخارات بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔اس نئے تجربے میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ کیا اس طرح سورج کی روشنی سے پانی کو بخارات میں تبدیل کرکے ہائیڈروجن حاصل کیا جاسکتا ہے جسے طیاروں اور گاڑیوں کے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔

قدرتی سورج بنیادی طورپر روشنی کی شکل میں توانائی فراہم کرتا ہے، لیکن یہ مصنوعی سورج روشن کرنے کے لیے توانائی استعمال کرنا پڑتی ہے۔ ان تجربات میں استعمال ہونے والے لیمپس بجلی سے چلتے ہیں۔چناں چہ چار گھنٹوں کے اس تجربے میں اتنی بجلی استعمال ہوئی جتنی چار افرادپر مشتمل گھرانہ ایک سال میں استعمال کرتا ہے۔ مگر سائنس دانوں کو توقع ہے کہ مستقبل میں قدرتی سورج کی روشنی کو ہائیڈروجن حاصل کرنے کے لیے کاربن نیوٹرل ذریعے سے استعمال کیا جاسکے گا۔

جرمن ماہرین کے مطابق ان تجربات کے دوران جن نکات پر توجہ مرکوز کی جائے گی، اُن میں سے ایک کا تعلق مؤثر طور پر ہائیڈروجن پیدا کرنے سےہے، جو طیا روں کے لیے مصنوعی ایندھن تیار کرنے کی جانب پہلا قد م ہے۔ان تجربات کا مقصد پانی کے مالیکیولز کو توڑ کر آکسیجن اور ہائیڈروجن میں تقسیم کرنا ہے۔ ہائیڈروجن کو خاص طور پر مستقبل کی بہت ماحول دوست توانائی کے ذر یعے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

مذکورہ تجربہ خاص طورپر تیار کی گئی تجربہ گاہ میں کیا گیا۔ماہرین کے بہ قول ایسے تجربات قدرتی ماحول میں اس لیے نہیںکیے جاسکتے کہ دھوپ کی شدت مختلف مقاما ت پروقتا فوقتا تبدیل ہوتی رہتی ہے۔اس لیے تجربہ گاہ میںیہ مصنوعی سورج تیار کیا گیاہے تاکہ تجربات کے لیے مسلسل یک ساںشدت کی روشنی اور حرارت میسر آسکے ۔ چناں چہ تجربہ گاہ میںکیے جانے والے تجربات سے زیادہ درست نتائج حاصل ہونے کی امید کی جا رہی ہے۔ اسی طرح یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ پانی کےسالمے توڑ کر ہائیڈروجن حاصل کرنے کا ایسا طریقہ معلوم ہو سکے گاجو آج کل رائج طریقوں کے مقابلے میں کافی سستا بھی ہو گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مصنوعی سورج کی روشنی اصل سورج کی روشنی سے ملتی جلتی ہے۔ اس میںاستعمال کیے جانے والے لیمپس کی اندرونی سطح چمک دارہے اور ان میں سے ہر ایک کا قطر ایک میٹرہے۔ان تمام لیمپس کوچودہ میٹر اونچے اور سولہ میٹر چوڑے تختے پر شہد کی مکھیوں کے چھتے جیسی شش پہلو شکل میں نصب کیا گیا ہے ۔ان کی روشنی ایک نقطے پر مرکوز کرنے سے اتنی زیادہ روشنی حاصل ہوتی ہے جو دس ہزار سورجوں کی روشنی جتنی تیز ہوتی ہے۔ اس مصنوعی سورج سے دیواروں پر پڑنے والی بالواسطہ روشنی کی حِدّت بھی اتنی شدید ہے کہ انسان اُسے محض ایک سیکنڈ تک ہی برداشت کر سکتا ہے۔

چین میں بھی مصنوعی سورج

گزشتہ برس ایک خبر آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چینی سائنس دانوں نے ایک اور کارنامہ کر دکھایا ہے جس سے دنیا حیران رہ گئی ہے۔اطلاعات کے مطابق چینی سائنس دان نظامِ شمسی کے سورج سے آٹھ گنا زیادہ گرم مصنوعی سورج بنانے میں کام یاب ہو گئے اور اس کا تجربہ بھی کر لیا گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق تجربے کے دوران اس مصنوعی سورج کا درجۂ حرارت 50ملین ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ تھا۔یہ سورج ہیفی انسٹی ٹیوٹ آف فزیکل سائنس (Hefei Institute of Physical Science) کے ماہرین نے بنایاہے۔اس انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ سائنس داں، ژو جیانان(Xu Jiannan) کے مطابق یہ مصنوعی سورج تھرمونیوکلیئر فیوژن کے عمل کے ذریعے توانائی پیدا کرتاہے اور اس کے ذریعے لامحدود توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ تجربے کے دوران اس سورج سے 102سیکنڈز تک 50ملین ڈگری سینٹی گریڈ تک توانائی حاصل کی گئی۔ یہ توانائی ہا ئیڈ روجن کے ریڈیو ایکٹیو آئسوٹوپس کے تعامل سے حاصل کی گئی۔واضح رہے کہ ہائیڈروجن بم بھی تھر مو نیو کلیئر فیوژن کے عمل کے ذریعے تاب کاری اور توانائی پیدا کرتا ہے۔

اس تجربے کے بعد یہ خبر بھی آئی تھی کہ چینی سائنس دان ہائیڈروجن گیس کی ایسی قسم بنانے کے قابل ہوگئے ہیں جو سورج سے تین گنا زیادہ گرم ہے۔یہ مصنوعی شمسی توانائی لازوال توانائی کے طور پر استعمال ہوگی۔جو موجودہ ایندھن کے ذرایع پر انحصار ختم اور دنیامیں توانائی کے بحران کا مسئلہ حل کردے گی۔بتایا گیا کہ چین نے یہ تجربہ ہیفی میں واقع انسی ٹیوٹ آف فزیکل سائنس کے بڑے مقناطیسی فیوژن ری ایکٹر میں کیا۔یاد رہے کہ یہ ری ایکٹر 1950کی دہائی میں روس کی جانب سے بنایا گیا تھا۔

اس مصنوعی سورج کے مرکزے کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ 15ملین ڈگری سینٹی گریڈ کا درجۂ حرارت رکھتا ہے۔گوکہ جرمن سائنس دانوں کی جانب سے کیے گئے گزشتہ تجربے میںاس سے زیادہ درجہ ٔحرارت حاصل کرنے کا دعوی کیا گیا تھا لیکن وہ اسے اتنی دیر تک برقرار نہیں رکھ پائے تھے۔ماہرین کے مطابق گوکہ یہ بہت بڑی کام یابی ہوسکتی ہے لیکن اس عمل کو بہتر بنانے میں شایددہائیاں لگ جائیں۔تب جاکرشاید اسے توانائی کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا جاسکے گا۔

تازہ ترین
تازہ ترین