• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:روبینہ خان ۔۔ ۔ مانچسٹر
پچھلے دنوں یوٹیوب پر ایک گانا" موہے پنگھٹ پہ نند لال چھیڑ گئے رے"سن رہی تھی تو ذھن 2017 کی تحریک me too کی طرف چلا گیا۔اس تحریک کے ذریعے خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسگی کی مذمت کی تھی ۔جبکہ اس گانے میں خاتون لہک لہک کر گا رہی تھی کہ جو کچھ ان کے ساتھ پنگھٹ پر ہوا۔ میں نے سوچا کہ آج کی دنیا میں اس گانے کو ہیش ٹیگ می ٹو، کے ساتھ ٹیگ کرنا چاہیے ۔پرانے زمانے کا ایک دھمکی آمیز گانا کچھ یوں ہے، میری چیچی دا چھلا ماہی لالیا، گھر جا کے شکیت لاؤانگی۔ جس میں بہرحال محبت کا عنصر غالب ہے۔ یہ گانا پنجابیوں کی بے باکی اور دلیری کو ظاہر کرتا ہے۔مشہور گانے بھی محاوروں کی شکل اختیار کر گئے ہیں خواہ نئے ہوں یا پرانے۔۔۔مثلا ، ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ بعض اوقات خبروں کی ہیڈلائن کے بعد گانا اس خبر کی وضاحت کرتا نظر آتا ہے ۔کچھ لوگوں کو یہ انداز بالکل پسند نہیں ہے لیکن اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ آج کی دنیا میں خبریں ڈھیروں ڈھیر ہیں، معلومات کے خزانے بکھرے پڑے ہیں۔ بندہ" نری خبروں" کو ڈیل نہیں کر سکتا۔زمانہ بدل گیا ہے۔ عشقیہ داستانوں کوعوام میں ہمیشہ پسند کیا جاتا رہا ہے۔ بڑی معتبر ہیں یہ داستانیں۔ سوہنی ماہیوال، رومیو جیولیٹ ہو یا ھیررانجھا ہو ۔جب کہ آج کے دور میں لو افیئرز کو اسکینڈل کہتے ہیں ۔جیسے مونیکا لیونسکی اور بل کلنٹن۔ مونیکا پچھتا رہی ہے کہ کاش ماضی کا یہ حصہ ان کی زندگی میں نہ ہوتا ۔ داستانیں لکھی جا چکی ہیں اور پچھتانے کے لیے انسان دستیاب نہیں ہیں۔ ایک کہاوت ہے کہ "جو لا حاصل ہوتے ہیں ان سے محبت نہیں عشق ہوتا ہے " محبت کی داستانوں کی سچائی میں یہی بنیادی چیز نظر آتی ہے ۔ آج کا دور مادی دور ہے ۔مارکیٹنگ کا زمانہ ہے ۔کہیں سے دھواں بھی نظر آئے اور اس میں volcano کا سا potential ہو تو لوگ اس کو بڑا بنا دیتے ہیں اس پر ناول لکھے جاتے ہیں ڈرامے اور فلمیں بنتی ہیں۔
"Scandal sells books, fidelity doesn't"
آج کل بات کہیں سے بھی شروع ہو ختم کشمیر پر ہی ہوتی ہے جیسے سچا جھوٹا اوراچھا ، برا ہوتا ہے اسی طرح بعض انسانوں کے گروہ یا اقوام ایسی ضرور ہوتی ہیں جو سچی ہوتی ہیں جو غلام بن کر نہیں رہ سکتیں ، بے خوف لوگوں کی نظر لامحدود ہوتی ہے ۔شیر جنگل میں شکار مار کر کھانے کو ترجیح دیتا ہے نہ کہ پنجرے میں بند اس کی خوراک اس کے آگے ڈھیر کیےجانے پرخوش ہوتا ہے ۔آج کل دنیا عجیب صورتحال سے دوچار ہے کہیں قانون بناکر اور کہیں قوانین توڑ کر لوگوں سے ان کے حقوق چھیننے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ہانگ کانگ میں ہنگامے ہیں لیکن اس خاموشی کا کیا، کیا جائے جو مقبوضہ کشمیر کی آبادی پر مسلط ہوگئی ہے۔ ڈرونز کے ذریعے گھروں میں قید لوگوں کی حرکات سکنات پر نظر رکھی جارہی ہے۔سات لاکھ فوجی اور خاردار تاریں کب تک جدوجہد آزادی کا راستہ روک سکیں گے۔ سیکورٹی کونسل کے اجلاس میں کشمیر کے بارے میں بھارتی موقف کو تسلیم نہیں کیا گیا جبکہ انڈیا کا میڈیا چلا چلا کر کہہ رہا ہے کہ پاکستان نے درخواست دی تھی کہ وہ بھی سیکورٹی کونسل کے اجلاس میں شرکت کرنا چاہتا ہے پاکستان کی درخواست مانی نہیں گئی۔ انڈین پرائم منسٹر نے پارلیمنٹ کے تقدس اور قوانین کے احترام کو پس پشت ڈالتے ہوئے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار دی ہے ۔ دنیا بھر نے جان لیا ہے کہ یہ غلط قدم ہے یہ انڈیا کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ اس نے انٹرنیشنل قوانین کی خلاف ورزی کی ہے ۔ چین کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے ۔ پاکستان اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے انڈیا کے یوم آزادی کو بلیک ڈے کے طور پر منایا۔ تادمِ تحریر آج 12 دنوں کے بعد مقبوضہ کشمیر ایک بڑے جیل کا منظر پیش کر رہا ہے ہے دنیا بھر میں ہونے والی کوئی بھی تقریب ہو اس کو کشمیر کے نام سے منسوب کیا جارہا ہے۔ آنے والا ہر لمحہ کشمیریوں کے لیے ہمت آزما ہے ، لیکن آزادی کی طرف جدوجہد بڑھ رہی ہے اور دل کہتا ہے کہ اب جموں کشمیر میں جلد آزادی کی صبح طلوع ہو گی۔پاکستان کا مقدمہ ہمارے عظیم قائد محمد علی جناح نے لڑا اور دنیا کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی جس کے نتیجے میں ہم آزاد ملک میں رہتے ہیں اور کشمیریوں کے درد کو محسوس کر سکتے ہیں ۔کاش اب کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے ۔پاکستانی لیڈروں کو ذہانت اور متانت سے مدبرانہ فیصلے کرنا ہوں گے تاکہ نریندر مودی جیسا ڈرامے باز اور جعلساز کوئی چھپا ہوا قدم نہ اٹھا سکے۔ہمارے لیڈروں کو عظیم قائد کے فیصلوں سے سیکھنا چاہیے۔
ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ حاضر ہے۔
سیکھنے کی بات ہے کہ کیسے انسان بری سیچویشن سے نکل سکتا ہے۔ قائداعظم ریل کے سفر میں اپنے لئے دو سیٹیں مختص کروایا کرتے تھے ایک مرتبہ کسی نے وجہ دریافت کی تو جواب میں انہوں نے یہ واقعہ سنایا"میں پہلے ایک ہی برتھ مختص کرواتا تھا ۔ایک دفعہ کا ذکر ہے میں لکھنؤ سے بمبئی جا رہا تھا کسی چھوٹے سے اسٹیشن پرایک اینگلو انڈین لڑکی میرے ڈبے میں بیٹھ گئی ۔چونکہ میں نے ایک ہی نشست ریزرو کروائی ہوئی تھی اس لئے میں خاموش رہا۔ ریل نے جب رفتار پکڑی تو اچانک لڑکی بولی، تمہارے پاس جو کچھ ہے فوراً میرے حوالے کر دو ورنہ میں ابھی زنجیر کھینچ کر لوگوں سے کہوں گی کہ یہ شخص میرے ساتھ زبردستی کرنا چاہتا ہے ۔ میں نے کاغذات سے سر نہیں اٹھایا۔ اس نے پھر اپنی بات دہرائی۔ میں پھر بھی خاموش رہا۔ آخر تنگ آ کر اس نے مجھے جھنجوڑا تو میں نے سر اٹھایا اور اشارے سے کہا میں بہرہ ہوں مجھے کچھ سنائی نہیں دیتا ۔جو کچھ کہنا ہے لکھ کر دو۔ اس نے مدعا کاغذ پر لکھ کر میرے حوالے کر دیا ۔ میں نے فوراً زنجیر کھینچی اور اسے مع تحریر کے ریلو ے حکام کے حوالے کردیا ۔ اس دن کے بعد سے میں ہمیشہ دو سیٹیں ریزرو کرواتا ہوں۔
تازہ ترین