٭…کسی زمانے میں فارسی ہماری ادبی ، دفتری اور تہذیبی زبان رہی ہے۔ ’’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، پڑھے لکھے کو فارسی کیاــ ‘‘ جیسی کہاوتیں اس بات کی شاہد ہیں کہ جس کو فارسی نہیں آتی تھی اسے پڑھا لکھا نہیں مانا جاتا تھا ۔لیکن پھر وہ دور آیا کہ ’’پڑھی فارسی بیچا تیل‘‘جیسی کہاوتیں مشہور ہوئیں کیونکہ فارسی سرکاری زبان نہ رہی اورفارسی جاننے والے بے روزگار ہوکر جوتیاں چٹخانے لگے۔ اگرچہ شعر و ادب کی حدتک فارسی باقی رہی ۔
افسوس کہ فارسی زبان و ادب کا چلن اب ہمارے معاشرے سے بالکل ہی اٹھتا جارہا ہے ۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ نئی نسل تو فارسی سے تقریباً نا بلد ہی ہے۔ حتیٰ کہ اردو میںایم اے کرنے والے بھی، جن کے جامعاتی نصاب میں بالعموم عربی و فارسی کا ایک پرچہ ہوتا ہے، فارسی مارے باندھے ہی پڑھتے ہیں ۔گو لاکھ سمجھائو کہ فارسی جانے بغیر اردو پر صحیح معنوں میں عبورحاصل نہیں ہوسکتا لیکن کون سنتا ہے فغانِ درویش۔
نئی نسل اگر دل چسپی لے تو فارسی زبان و ادب سے متعلق ایسے دل چسپ واقعات اور حکایات پڑھنے کو ملیں گی جن میں زبان کا لطف بھی ہوگا ، ادب کی چاشنی بھی ہوگی اور جو دانش آمیز اور زندگی آموز بھی ہوں گی۔ ان میں سے کچھ واقعات اورلطائف پیشِ خدمت ہیں۔
٭٭……٭٭……٭٭
فردوسی فارسی کا عظیم شاعر تھا۔ اس کا شاہنامہ نہ صرف فارسی زبان و ادب کا خزینہ ہے بلکہ بقول ڈاکٹر سید عبداللہ ایک حماسۂ ملی اور ایرانی تاریخ و تہذیب کا انسائیکلوپیڈیا بھی ہے ۔ کہتے ہیں کہ محمود غزنوی نے بھی فردوسی کی بڑی قدر کی، اگرچہ ایک رائے اس کے برعکس بھی ہے (یہ اور بات ہے کہ محمود غزنوی کو بد نام کرنے کے لیے فردوسی کے نام سے محمود غزنوی کی جعلی ہجو تیار کی گئی)۔
ایک حکایت بلکہ لطیفہ شاہنامۂ فردوسی سے متعلق پیش ہے۔ ایک شہزادہ چونکہ عرصے تک زنان خانے میں رہا تھا اور زیادہ اٹھنا بیٹھنا شاہی خاندان کی خواتین اور کنیزوں کے درمیان تھا لہٰذا اس کے مزاج میں کچھ زنانہ پن آگیا اور اندازِ نشست و برخاست سے نسوانیت جھلکنے لگی۔ بادشاہ کو تشویش ہوئی اور اس نے عقل مندوں سے مشورہ کیا۔ کسی نے کہا کہ شہزادے کو شاہنامۂ فردوسی پڑھوایئے۔ اس میں ایران کے قدیم جنگجوئوں اور بہادروں کے قصے اور جنگ و جدل کی تصویر کشی ہے ۔ ممکن ہے کہ ان کے پڑھنے سے اس کا دل قوی ہو اور کچھ مردانہ صفات پیدا ہوں۔ بادشاہ نے اس کا انتظام کردیا۔ کچھ عرصے کے بعد بادشاہ نے شہزادے سے امتحاناًپوچھا کہ شاہنامہ پڑھتے ہو، اس کا کون سا شعر تمھیں زیادہ پسند آیا۔ شہزادے نے کہا
منیزہ منم دختِ افراسیاب
برہنہ ندیدہ تنم آفتاب
یعنی میں افراسیاب کی بیٹی منیزہ ہوں اور (میں اتنی شرمیلی ہوں کہ ) میرے جسم کو سورج نے بھی عریاں نہیں دیکھا (یعنی کبھی بے پردہ باہر نہیں آئی)۔
بادشاہ کے مشیروں نے یہ جواب سنا تو کہا کہ شہزادہ لا علاج ہے۔
٭٭……٭٭……٭٭