مسئلہ کشمیر اور افغان امن عمل اس وقت دنیا بھر کی توجہ کا مرکز ہیں اور ان کے حل کی کوششوں کے سلسلے میں آئندہ ایک ہفتے میں اسلام آباد سفارتی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہے گا۔ پاکستان ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں ظالمانہ بھارتی اقدامات اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف عالمی برادری کو متوجہ کر رہا ہے تو دوسری طرف افغانستان میں تقریباً تین دہائیوں سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے اور امن کے قیام کی کوششوں میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ تنازع کشمیر کے حوالے سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ بدھ کو اسلام آباد پہنچے۔ چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ اگلے ہفتے آ رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز دو ہفتے میں تیسری مرتبہ سعودی ولی عہد سے تبادلہ خیال کیا جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ترکی، ایران اور بنگلہ دیش کے وزرائے خارجہ کو جموں و کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا۔ سعودی و اماراتی وزرائے خارجہ پاک بھارت کشیدگی میں کمی لانے کے مشن پر آئے ہیں۔ ترکی، ایران اور بنگلہ دیشی وزرائے خارجہ کو ٹیلی فون پر شاہ محمود قریشی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے یک طرفہ اقدامات سے پورے خطے کے امن و امان کو لاحق خطرات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالی علاقے میں نئے انسانی المیے کی نشاندہی کر رہی ہے۔ افغان امن کے حوالے سے 7ستمبر کو ہونے والے سہ فریقی اجلاس میں افغان مفاہمتی عمل میں اب تک کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری کی افغانستان تک توسیع پر بھی غور ہوگا۔ ایسے وقت میں جب پاکستان مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ظالمانہ کارروائیوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو بین الاقوامی سطح پر منظر عام پر لانے کے لئے سفارتی مہم جاری رکھے ہوئے ہے اور امریکہ اور طالبان میں مفاہمت کا مسودہ تیار ہو چکا ہے، اسلام آباد میں ہونے والے صلاح مشورے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس نوعیت کے رابطے 27ستمبر کو ہونے والے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کے موقف کی حمایت کے لئے بھی ضروری ہیں۔