• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کے ضلع میرپورخاص میں واقع ڈگری تعلقہ کے ٹنڈو جان محمد شہر کے نزدیک تاریخی پران دریا کے کنارے ایک تاریخی قبرستان واقع ہے ، جسے’’ 'آمری قبرستان ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آمری تہذیب کے کھنڈرات جام شورو میں واقع ہیں لیکن اس کے نام سے قبرستان ٹنڈو جان محمد میں ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قبرستان مسلمانوں کے دور کا ہے اور 700 سو سال قدیم ہے۔ 

گیارہویں صدی عیسوی میں مغلیہ خاندان کی حکومت ہندوستان کے علاوہ سندھ سے ملتان تک تھی۔ اس قبرستان کی تاریخ، مکلی کے قبرستان سے بھی 300 سو سال پرانی ہےجو ٹنڈوجان محمد کے ساتھ دریائے پران کے کنارے واقع ہے۔ یہ علاقہ پہلے دریا کی گزر گاہ تھی۔ کلہوڑوں کے دور میں دریا کا رخ موڑ دیا گیا ۔

ـآمری کے قبرستان سےبہت سی کہانیاں منسوب ہیں، اس میں 12 فٹ لمبی قبریں ہیں جبکہ دوسری کہانی کے مطابق سلطان محمود غزنوی سومناتھ کی فتح کے بعد اس علاقے سے گزرا تو اس نےاس علاقے میں قیام کیا تھا۔ یہاں اس کے لشکر میں وباء پھیل گئی جس کی لپیٹ میں آکر ہزاروں فوجی ہلاک ہوگئے تھے، جنہیں یہاں اجتماعی قبروں میں دفنایا گیا۔ یہ کہانی بھی مشہور ہے کہ محمود غزنوی کا سونا بھی یہاں کی کسی قبر میں دفن ہے ۔ اکثر و بیشتر یہاں قبریں کھدی ہوئی ملتی ہیں مگر لوگ سونا حاصل کرنے میںناکام رہے ہیں۔قبروں پر کچھ تحریریں ہیں جنہیں ماہر لسانیات بھی سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔

تحفہ الکرام میں بتایا گیا ہے کہ، شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی نے آمری کے مقام پر ایک املی کا درخت لگایا ، جو بعد میں اولیائے کرام اور بزرگوں کی زیارت گاہ کے حوالے سےمعروف مقام بن گیااور ’’آمری قبرستان‘‘ کے نام سےمشہور ہوگیا۔ شیخ بہاؤالدین کے مریدین اس جگہ سماع اور عبادت کرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ دوسری روایت کے مطابق یہ جگہ بہاؤالدین زکریا کی چلہ گاہ تھی جب کہ املی کا درخت کسی اور بزرگ نے لگایا تھا، لیکن بعد میںاس درخت کی پوجا ہونےلگی۔ 

ایک جادوگر نےکوئی سحر کیا تو اس میں ایک سوراخ نمودار ہوگیا جس کے بارے میں جادوگر نے مشہور کردیا ،جو اس سوراخ کے اندر جاکر نکلے گا وہ صحیح النسل ہوگا۔ یہ بات دوردراز کے علاقوں میں مشہور ہوگئی اورروزانہ سیکڑوںلوگ اسے آزمانے کے لیے آنے لگے۔ مسلمانوں نے اس بات کی شکایت ممتازعالم دین محمد ہاشم ٹھٹھوی سے کی۔ انہوں نے اپنے ساتھی ،عبدالرحیم گرھوڑی کو اس بدعت کے سدباب کا حکم دیا۔ 

وہ اس علاقے میں پہنچے ۔ جب انہوں نے اس درخت کے ایک تنے کو کاٹا تو اس میں سے سانپ نکلا۔ انہوں نے اس سانپ کو مارڈالا۔ جب دوسرے تنے کو کاٹاگیا تو اس میں سے بھی سانپ برآمد ہوا، جسے مار کر انہوں نے درخت کو جڑ سے کاٹ دیا۔ یہ جگہ آج بھی ’’گرھوڑی ‘‘کے نام سے معروف ہےـ

ایک اور کہات کے مطابق اس مقام پر سات ’’سرکٹے‘‘درویشوں کی قبریں ہیںجنہیں” مامویا فقیر ‘‘کہا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں مشہور ہےکہ یہ فقیر ٹھٹھہ میں رہتےتھے ۔وہاں کے حاکم نے کسی بات پر غضب ناک ہوکران کے سر قلم کرادئیے ۔ ان کے مرنے کے بعد وہاں موجود لوگوں نے عجیب و غریب منظر دیکھا۔ زمین پر گرتے ہی سرکٹے درویش کھڑے ہوگئے اور اپنے سر اٹھا کر ہوا میں پرواز کرنے لگے۔ اڑتے ہوئے ’’وریائے پران‘‘ کے اوپر سے گزرے، جس کے کنارے ایک عورت کپڑے دھو رہی تھی اور اس کا بچہ بھی اس کے قریب بیٹھا ہوا تھا۔

اس نے جب سر کٹے درویشوں کو اڑتے دیکھا تو اپنی ماں سے سندھی میں کہا کہ’’ ماں مویا پیاؤ‘‘۔ اس کے ادا کیے ہوئے جملے کی مناسبت سے اس جگہ کا نام مامویا پڑ گیا۔ ان فقیروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پیش گوئی کرتے تھے اور شاعربھی تھے۔ بعد ازاں یہ فقیر اپنے سرہاتھوں میں تھامے اسی جگہ اتر ے اور زمین پر ساکت لیٹ گئے۔ اہل علاقہ نے ان کے مردہ جسموں کو اٹھا کر آمری قبرستان میں دفن کردیا۔

ّآج یہ تاریخی قبرستان زبوں حالی کا شکار ہےاور اس کی دیکھ بھال کے لیے کوئی بھی ادارہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سیم و کلر کی وجہ سے زیادہ تر قبروں کے نام و نشان مٹ چکے ہیں۔ اگرحکومت کی طرف سے اس پر توجہ نہیں دی گئی تو کچھ عرصے یہ قدیم قبرستان قصہ پارینہ ہو جائے گا۔

تازہ ترین