چوں کہ پاک، چین اقتصادی راہ داری کی وجہ سے اِن دنوں گلگت بلتستان خاصی اہمیت اختیار کر چکا ہے، لہٰذا پاکستان سے الحاق کے بعد اصلاحات کی صورت اس خطّے میں رونما ہونے والی انتظامی، سیاسی و عدالتی تبدیلیوں سے آگہی بھی معنویت رکھتی ہے۔ یکم نومبر 1947ء کو گلگت بلتستان کے باشندوں نے ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے تحت ڈوگرہ راج سے نجات حاصل کر کے ایک خود مختار ریاست قائم کی اور 16روز بعد اس کا نظم و نسق پاکستان کے حوالے کر دیا۔ حکومتِ پاکستان نے گلگت بلتستان یا شمالی علاقہ جات کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد یہاں نو آبادیاتی دَور کا قانون، ایف سی آر لاگو کر دیااور تمام انتظامی و عدالتی معاملات افسر شاہی کو سونپ دیے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے ساتھ الحاق سے قبل ریاست جمّوں و کشمیر کے زیرِ انتظام گلگت بلتستان میں ایک خود مختار عدالتی نظام موجود تھا اور اس کے ساتھ ہی شہریوں کو کشمیر ہائی کورٹ میں اپیل کا حق بھی حاصل تھا۔ بعد ازاں، شمالی علاقہ جات میں بہ تدریج اصلاحات کا آغاز ہوا، جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
٭…1950ء میں وفاقی حکومت نے شمالی علاقہ جات کے لیے خصوصی وزارت قائم کی، جسے ’’وزارتِ اُمورِ کشمیر و شمالی علاقہ جات‘‘ سے موسوم کیا گیا۔
٭…1952ء میں وزارتِ امورِ کشمیر و شمالی علاقہ جات کے جوائنٹ سیکریٹری کو ریزیڈنٹ کا عُہدہ دیتے ہوئے تمام انتظامی و عدالتی اختیارات اسے سونپ دیے گئے۔
٭…1967ء میں شمالی علاقہ جات میں مزید اصلاحات کی گئیں۔ ریزیڈینٹ کے اختیارات میں اضافہ کرتے ہوئے اسے مالیاتی کمشنر کا عُہدہ بھی تفویض کردیا گیا۔ نیز، گلگت اور بلتستان کے لیے الگ الگ پولیٹیکل ایجنٹس مقرّر کیے گئے اور انہیں محصول جمع کرنے کے علاوہ کمشنر ایف سی آر، پولیس چیف اور کوآپریٹو سوسائٹی آفیسر کے اختیارات بھی سونپ دیے گئے۔
٭…1970ء میں شمالی علاقہ جات کی نمایندہ مجلس کا قیام عمل میں آیا اور 16ارکان کے چنائو کے لیے شمالی علاقہ جات مشاورتی کائونسل کے انتخابات ہوئے۔ مذکورہ کائونسل کو ترقّیاتی منصوبوں کی منظوری کا اختیار دیا گیا۔
٭…1972 ء میں صدارتی حکم نامے کے ذریعے ریزیڈنٹ کے عُہدے کو ریزیڈنٹ کمشنر اور ایجنسیز کو اضلاع میں تبدیل کر دیا گیا۔ اضلاع کے لیے ڈپٹی کمشنرز کا تقرّر عمل میں لایا گیا اور ایک نیا ضلع، ’’دیامر‘‘ وجود میں آیا۔
٭…1974 ء میں وزیرِ اعظم، ذوالفقار علی بُھٹّو نے شمالی علاقہ جات میں انتظامی و عدالتی اصلاحات کے لیے ایک اصلاحاتی پیکیج کا اعلان کیا۔ ان اصلاحات کے ذریعے ریاستِ ہُنزہ اور ایف سی آر کا خاتمہ کیا گیا۔ ریاست کے حکم رانوں کو ملازمتوں اور مینٹی نینس الائونس کی فراہمی کا اعلان کیا گیا، جب کہ دو نئے اضلاع، غذر اور گانچھے کا قیام بھی عمل میں آیا۔
٭…1977 ء میں جنرل ضیاء الحق نے شمالی علاقہ جات کو ’’زون ای‘‘ کا نام دیتے ہوئے یہاں بھی مارشل لا نافذ کر دیا۔ اس فیصلے کو کشمیر پالیسی سے انحراف قرار دیا گیا۔علاوہ ازیں، گلگت بلتستان کے نمایندے کو مجلسِ شوریٰ میں نمایندگی دی گئی۔
٭…1985ء میں شمالی علاقہ جات میں مزید اصلاحات کے لیے سیکریٹری خزانہ، سیکریٹری منصوبہ بندی، سیکریٹری قانون، سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری تعلیم اور وزیرِ امورِ کشمیر و شمالی علاقہ جات پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی کی سفارش پر شمالی علاقہ جات سے منتخب کردہ ایک نمایندے کو وزیرِ امورِ کشمیر کا مُشیر مقرّر کیا گیا۔ پہلے مُشیر احمد علی شاہ تھے۔
٭…1988ء میں شمالی علاقہ جات کائونسل کے منتخب نمایندے، قربان علی کو وزیرِ اعظم، بے نظیر بُھٹّو نے اپنا مُشیر منتخب کیا۔ ان کا عُہدہ وزیرِ مملکت کے مساوی تھا۔
٭…1994ء میں بے نظیر بُھٹّو کے دوسرے دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں وفاقی کابینہ نے شمالی علاقہ جات کے لیے ایک اور اصلاحاتی پیکیج کا اعلان کیا۔ اسے ایل ایف او (لیگل فریم ورک آرڈر) کا نام دیا گیا اور اس کے ذریعے شمالی علاقہ جات کے لیے رُولز آف بزنس طے کیے گئے۔ مذکورہ اصلاحاتی پیکیج کے نتیجے میں چیف سیکریٹری اور سول سیکریٹریٹ کا قیام عمل میں آیا اور عدالتی اصلاحات بھی متعارف کروائی گئیں۔ عدالتی اصلاحات کے ذریعے جوڈیشل کمشنر کا عُہدہ ختم کر کے اس کی جگہ ایک سابق جج کی سربراہی میں تین رُکنی چیف کورٹ تشکیل دی گئی اور وفاقی و صوبائی سینئر جوڈیشل آفیسر اور شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی ڈسٹرکٹ سیشن جج چیف کورٹ کے کا رُکن بننے کا اہل تھا۔ 1999ء میں شمالی علاقہ جات کی مجلسِ قانون ساز کو مزید با اختیار بنانے کے لیے لیگل فریم ورک آرڈر میں ترمیم کی گئی اور ایل ایف او کے شیڈول2میں کائونسل کو49 مضامین میں قانون سازی کا اختیار دیا گیا۔
٭…2005 ء میں شمالی علاقہ جات کورٹ آف اپیلز کے قیام کے علاوہ قانون ساز اسمبلی کی مخصوص نشستوں میں ٹیکنو کریٹس کی 6نشستوں اور خواتین کی ایک نشست کا اضافہ کیا گیا۔
٭…2006ء میں شمالی علاقہ جات کی مجلسِ قانون ساز کو مزید با اختیار بنانے کے لیے اس میں 6اراکین کا اضافہ کیا گیا اور ان اراکین کی تن خواہ و مراعات کو آزاد کشمیر کے ارکانِ اسمبلی کے مساوی کر دیا گیا۔
٭…2007ء میں شمالی علاقہ جات لیگل فریم ورک آرڈر کا نام تبدیل کر کے شمالی علاقہ جات گورنینس آرڈر 1994ء رکھ دیا گیا اور شمالی علاقہ جات لیجیسلیٹیو کائونسل کو شمالی علاقہ جات قانون ساز اسمبلی کا نام دیا گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے دَورِ حکومت میں گلگت بلتستان کے جمہور کے پُر زور مطالبے پر وزیرِ اعظم پاکستان، یوسف رضا گیلانی نے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی، جسے گلگت بلتستان میں مزید اصلاحات کی ذمّے داری سونپی گئی۔ اس کمیٹی کی سربراہی وزیرِ امورِ کشمیر و شمالی علاقہ جات کو سونپی گئی۔ کمیٹی میں ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی، وزیرِ قانون، وزیرِ خارجہ، سیکریٹری قانون و انصاف اور مُشیرِ داخلہ شامل تھے۔ مذکورہ کمیٹی نے گلگت بلتستان کے لیے ایک اصلاحاتی پیکیج تیار کیا، جسے صدرِ مملکت کی منظوری سے ’’گلگت بلتستان خود مختاری و خود حکومتی ضابطہ 2009ء‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ آرڈیننس ستمبر 2009ء میں جاری کیا گیا۔ اس صدارتی حکم نامے کے ذریعے شمالی علاقہ جات کو گلگت بلتستان کا نام دیا گیا۔ نیز، گلگت بلتستان میں گورنر کی تعیناتی، گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کا قیام، وزیرِ اعظم کی سربراہی میں گلگت بلتستان کائونسل کا قیام، ایڈوکیٹ جنرل کی تعیناتی، پبلک سروس کمیشن کا قیام، چیف الیکشن کمشنر اور آڈیٹر جنرل کی تعیناتی، گلگت بلتستان کنسولڈیٹڈ فنڈ کا قیام، گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ اور سپریم جوڈیشل کائونسل کا قیام عمل میں آیا۔ علاوہ ازیں، گلگت بلتستان اسمبلی کے اختیارات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے اسےاُن تمام مضامین میں قانون سازی کی اجازت دی گئی کہ جو گلگت بلتستان کائونسل کےدائرۂ اختیار سے متصادم نہ ہوں۔