• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’کوٹ لکھپت جیل میں قید سابق وزیراعظم نواز شریف نیب کے زیرحراست اپنی بیٹی مریم نواز کو ساتھ لے کر پاکستان سے بیرون ملک روانہ ہو جائیں گے۔

وہ تب تک پاکستان سے باہر ہی رہیں گے جب تک عمران خان اپنے دورِ اقتدار کے باقی چار سال پورے نہیں کر لیتے۔

بیرون ملک قیام کے دوران نہ صرف نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز خاموش رہیں گے بلکہ ان کی جماعت بھی حکومت کیلئے کسی قسم کی پریشانی کا سبب نہیں بنے گی۔

اپوزیشن محض دکھاوے کی ہوگی حتیٰ کہ اگر کسی مرحلے پہ عوام کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو جائے تو مسلم لیگ(ن) حکومت کو غیرمستحکم کرنے کے کسی عمل میں شریک نہیں ہوگی۔

نواز شریف اور مریم نواز کی وطن واپسی کی راہ آئندہ عام انتخابات سے قبل ہموار کر دی جائے گی اور انہیں ملکی سیاست میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی۔

ان کے خلاف تمام مقدمات بتدریج ماضی کا حصہ بن جائیں گے اور عدالتوں سے ان کی سزائیں ختم کرانے کیلئے بطور استغاثہ بھرپور تعاون فراہم کیا جائے گا‘‘۔

یہ ہے اس مبینہ ڈیل کی وہ کہانی جو گزشتہ کچھ عرصہ سے افواہ کی شکل میں ملک میں پھیلائی جا رہی ہے اور اس میں مزید رنگ بھرنے کیلئے یہاں تک دعوے کیے جا رہے ہیں کہ نواز شریف اس مبینہ ڈیل کیلئے پلی بارگین کی مد میں اربوں روپے واپس کرنے کیلئے تیار ہو گئے ہیں۔

یہ بھی افواہ ہے کہ صدر مسلم لیگ(ن) شہباز شریف اور پارٹی کے کچھ سینئر رہنما بھی نواز شریف کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ڈیل قبول کرکے ملکی تاریخ کو تبدیل کرنے کی ضد سے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔

اب کچھ حقائق کی روشنی میں اس مبینہ ڈیل کی بازگشت کا جائزہ لیتے ہیںْ

سب سے پہلا تضاد تو خود حکومت کی طرف سے سامنے آ رہا ہے کہ ایک طرف شیخ رشید جیسے وزرا ببانگ دہل کہتے ہیں کہ نواز شریف پیسے دیں اور ملک سے باہر چلے جائیں ۔

جبکہ وزیراعظم عمران خان بار بار اعلان کرتے ہیں کہ وہ ڈیل دیں گے اور نہ ہی ڈھیل اور نہ وہ کسی کو این آر او دیں گے تو پیسے دے کر باہر چلے جانا کیا ڈیل، ڈھیل اور این آر او کے زمرے میں نہیں آتا؟

اور دوسری طرف ان باتوں سے جو تاثر دیا جا رہا ہے کہ حکومت شریف یا زرداری خاندان کے ساتھ کسی قسم کی رو رعایت نہیں برتے گی تو کیا وہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ یہ ڈیل حکومت اور نواز شریف کے درمیان نہیں بلکہ نواز شریف اور کسی اور کے درمیان ہو رہی ہے۔

اب اگر اس سوال کا جواب تلاش کیا جائے کہ ملک کی موجودہ صورتحال میں کیا ڈیل کی ضرورت نواز شریف کو ہے؟ تو بھی یہ گتھی آسانی سے سلجھ جاتی ہے۔

وزارت عظمیٰ سے فراغت سے لے کر کلثوم نواز کی رحلت، لندن سے بیٹی سمیت واپس آکر ایک مقدمے میں جیل جانے اور پھر اس میں سزا معطلی کے بعد دوسرے مقدمے میں دوبارہ قید ہونے اور اپنی آنکھوں کے سامنے بیٹی کی دوبارہ گرفتاری کو دیکھنے تک کون سی مشکل ہے جو نواز شریف نہیں جھیل چکا۔

وہ اب کس رعایت کیلئے ڈیل چاہے گا اور پھر اپنی عزت نفس کی پامالی کو سب سے بڑا دکھ سمجھنے والا نواز شریف کیا اس مرحلے پہ کسی ڈیل کے تحت اپنی اور اپنی بیٹی کی سیاست کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنے پہ تیار ہو سکتا ہے۔

جواب یقیناً بہت آسان ہے، مختلف ذرائع سے حاصل معلومات کی بنیاد پہ مبینہ ڈیل کی اصل حقیقت سے بھی قارئین کو آگاہ کردوں کہ جب نواز شریف اور مریم نواز ایون فیلڈ ریفرنس میں پہلی بار جیل گئے تھے تو تب شریف خاندان کو پیشکش کی گئی تھی کہ انہیں علاج کی غرض سے بیرون ملک بھیج دیا جائے گا اور پھر وہ موجودہ حکومت کے دور اقتدار کے خاتمے تک وہیں قیام کریں لیکن نواز شریف نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔

اب گزشتہ چند ماہ سے افواہیں پھیل رہی ہیں کہ ایک بار پھر ڈیل کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں اور نواز شریف کو پیغامات آ رہے ہیں، پیشکش اب بھی وہی ہے کہ نواز شریف اپنی بیٹی کے ہمراہ پاکستان چھوڑ جائیں اور حالات سازگار ہونے کے بعد انہیں واپس بلا لیا جائے گا لیکن اپنے بیانیے پہ قائم نواز شریف کا جواب آج بھی وہی ہے۔

جہاں تک (ن)لیگ کے رہنمائوں کی ڈیل کی حمایت کی بات ہے تو اس میں صرف اس حد تک صداقت ہے کہ شہباز شریف سمیت چند سینئر پارٹی رہنما مزاحمت کے بجائے مفاہمت کے قائل ہیں اور وہ تحریک انصاف کی حکومت کو احتجاج کے بجائے اپنے بوجھ سے خود گرنے دینے کی پالیسی کے قائل ہیں۔

یہ پارٹی رہنما تو احتساب عدالت پیشی کے وقت بھی نہیں پہنچتے کہ مبادا کسی مقدمے میں ان کا نام نہ آ جائے، افواہیں ہیں کہ ایسے پارٹی رہنمائوں سے نواز شریف اور مریم نواز سخت ناراض ہیں جس کا اظہار انہوں نے کیپٹن صفدر کی طرف سے مولانا فضل الرحمٰن کو اکتوبر دھرنے کی حمایت کا پیغام دے کر کر دیا ہے۔

جہاں تک مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے سے اقتدار کے حلقوں میں پائی جانے والی تشویش کا تعلق ہے تو افواہ ہے کہ انہیں رام کرنے کی تمام کوششوں میں ناکامی کے بعد اب ان کے بڑوں کی مدد طلب کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کے لئے باہر سے ایک وفد رواں ماہ ہی پاکستان پہنچے گا۔

اگر مولانا فضل الرحمٰن نے اس چال سے مات کھانے سے خود کو بچا لیا تو پھرڈیل کی ضرورت نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کو نہیں بلکہ کسی اور کو ہوگی۔

تازہ ترین