کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج پر بیٹھے سندھ بھر کے اساتذہ نے وزیر اعلیٰ ہاؤس جانے کی کوشش کی جس پر پولیس نے مظاہرین کو وزیر اعلیٰ ہاؤس جانے سے روک دیا۔
پولیس اور اساتذہ کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی ہے، پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور واٹر کینن کا استعمال بھی کیا۔
یہ بھی پڑھیئے: گھر بیٹھے تنخواہ لینے والے 114 اساتذہ و ملازمین برطرف
پولیس نے متعدد اساتذہ کو حراست میں لے لیا ہے، جبکہ اساتذہ نے اپنا احتجاج ختم نہیں کیا ہے اور وہ فوارہ چوک سے آرٹس کونسل آنے والی دونوں سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔
اساتذہ کے احتجاج کے باعث اطراف کے علاقوں اور سڑکوں پر ٹریفک کی آمد و رفت معطل ہو گئی ہے اور اتوار کو کاروباری دن نہ ہونے کی وجہ سے مارکیٹیں بند ہیں ، تاہم ٹریفک کی معطلی سے شہریوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔
سندھ بھر سے آئے ہوئے ہیڈ ماسٹرز اور ہیڈ ٹیچرز کی جانب سے مستقل نہ کرنے پر حکومت سندھ کے خلاف کراچی پریس کلب پر احتجاج جاری ہے۔
احتجاجی اساتذہ کا کہنا ہے کہ جب تک ہمیں مستقل نہیں کیا جائے گا اس وقت تک احتجاج ختم نہیں کیا جائے گا۔
سندھ حکومت کی جانب سے 2015ء میں ہیڈ ماسٹرز اور ہیڈمسٹریس کی خالی اسامیوں کے لیے ٹیسٹ لیے گئے تھے، جن کے بعد چیف سیکریٹری کی جانب سے کمیٹی تشکیل دے دی گئی جس نے ڈگریوں کی تصدیق کے بعد اساتذہ کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا اور انہیں بعد میں مستقل کرنے کا کہا گیا۔
تاحال ان اساتذہ کو مستقل نہیں کیاجاسکا ہے، اب کنٹریکٹ ختم ہونے کو ہے تو اساتذہ کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہے اور وہ ملازمتوں کو مستقل کروانے کے لیے کراچی پریس کلب پر احتجاج کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جب تک تمام اساتذہ کو مستقل نہیں کیا جائے گا ان کا احتجاج ختم نہیں ہوگا، سندھ حکومت ایک جانب روزگار دینے کی باتیں کرتی ہے اور دوسری جانب اساتذہ کو ملازمت سے فارغ کر کے کئی گھروں کا مستقبل داؤ پر لگا رہی ہے۔
اساتذہ نے مطالبات کی منظوری نہ ہونے پر آج وزیر اعلیٰ و گورنر ہاؤس جانے کا اعلان کیا تھا۔