• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سسرالی رشتے نبھانے کے لیے ایثار، محبت، خلوص اور اپنائیت کو پروان چڑھانےکی ضرورت ہوتی ہے

صائمہ راحت

اف خدایا! ساڑھے چھ بج گئے۔ آج پھر بچے اسکول سےلیٹ ہو جائیں گے اور گھر میں ایک ہنگامہ برپا ہو گا۔ ماریہ نے جلدی سے بستر سے اٹھتے ہوئے سوچا۔ اپنے لمبے بالوں کا جوڑا بنایا اور کیچر لگا کر وضو کرنے چلی گئی۔

نماز فجر سے فارغ ہو کر اذکار پڑھنے شروع کئے اور ساتھ ساتھ ناشتے کی تیاری بھی۔ جتنی دیر میں اس نے ناشتہ بنایا اس وقت تک اس کے سسر نے دونوں بچوں کو اٹھا کر منہ، ہاتھ دھلوایا اور وضو کروا کر نماز فجر پڑھنے کے لیے کھڑا کیا۔

چلو شکر ہے مشترکہ خاندانی نظام کا کوئی تو فائدہ ہوا کہ بچّوں کو صبح صبح اٹھانے کی مشقّت برداشت نہیں کرنی پڑتی ورنہ اس کے لیے اور علی الصبح اٹھنا پڑتا۔ ماریہ میز پر ناشتہ لگاتے ہوئے سوچ رہی تھی۔

آجاؤ بچّوں! جلدی سے ناشتہ کر لو ورنہ اسکول سے دیر ہو جائے گی۔ ماریہ نے بچّوں کو آواز دی۔

شادی کے بعد تو انسان کو سانس بھی دوسروں کی مرضی سے لینی پڑتی ہے۔ ہر کام دوسروں کی مرضی کے مطابق کرناپڑتا ہے ۔

یہ بھی کوئی زندگی ہے ! ہر وقت کام بس کام ہی کرتے رہو،فائقہ نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔

ہاں واقعی یہ تو حقیقت ہے کہ شادی کے بعد ساس اورنندوںکے بکھیڑوں میں انسان کی پوری زندگی الجھ کر رہ جاتی ہے اور یہ وہ رشتے ہوتے ہیں جن کی خاطر انسان اپنا آپ بھی بھول جاتا ہے ،پھر بھی وہ اس کی قدر نہیں کرتے ۔نہال نے فائقہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ۔

ماریہ جو خاموشی سے دونوں بہنوں کی گفتگو سن رہی تھی اس نے مسکراتے ہوئے کہا… یہ سسرالی رشتے دار کوئی مافوق الفطرت چیزوں کا نام نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ان رشتوں کے حوالے سے ایسی باتیں منسوب کر دی گئی ہیں جن کی بنا پر یہ رشتے بدنام ہو گئے ہیں۔ تم لوگ یہ بھی تو سوچو کہ یہی دادا، دادی ،چچااور پھوپھو ایسے پیارے رشتے ہوتے ہیں جن کے دم سے گھر میں رونق ہوتی ہے۔ یہ ہمارے بچّوں پر اپنی محبتیں نچھاور کرتے ہیںاور بہترین طریقے سے ان کی تربیت بھی کرتے ہیں۔

تم ان لوگوں سے پوچھو جن کا کوئی سسرال نہیں یا جو دیار غیر میں تنہا اپنے خاندان سے کٹ کر زندگی گزار رہے ہیں ان کو ہمہ وقت ساس، سسر اور نندوں کی کمی محسوس ہوتی رہتی ہے۔ اب تم لوگ مجھ کو ہی دیکھ لو کہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہنے کے باوجود میرے پاس کتنا زیادہ وقت بچ جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اکثر کاموں میں ساس، سسر اور نندیں ہاتھ بٹا دیا کرتی ہیں،یوں کم وقت میں زیادہ کام ہو جاتے ہیں اور مجھے اپنے مطالعے اور لکھنے لکھانے کے لیے بھی وقت مل جاتا ہے۔

یہ تو ہے آپی! مگر ہر کوئی آپ کے سسرال والوں کی طرح اچھا نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو اتنا اچھا سسرال ملا ہے، فائقہ مسکراتے ہوئے بولی۔

پیاری بہنا! بات اچھے یا برے کی نہیں ہوتی۔ اصل مسئلہ ہماری سوچ اور رویےّ کا ہوتا ہے۔ اگر ہم پہلے سے ہی کسی کے متعلق بری رائے قائم کر لیں گے تو پھر وہ شخص ہمارے ساتھ کتنا ہی اچھا کرنے کی کوشش کرے ہمیں اس کے ہر کام میں نقص ہی نظر آتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمارے آپس کے تعلقات کبھی بھی خوشگوار نہیں ہو پاتے۔

ساس، بہو کا رشتہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ اس میں چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بہت بڑی محسوس ہوتی ہیں، پھر اگر ہماری سوچ بھی منفی ہو تو یہ سونے پہ سہاگے کا کام دیتی ہے اور یوں باہمی تعلقات ہمیشہ کشیدہ ہی رہتے ہیں۔

اس لئے ہمیں مثبت سوچنا چاہیے۔ ہر شخص میںکوئی نہ کوئی خوبی ضرور ہوتی ہے، ہمیں اسے لازمی تلاش کرنا چاہیے۔ پہلے سے کسی بھی رشتے کے متعلق کوئی رائے قائم نہیں کر نی چاہئے۔ ہم دوسروں کے ساتھ مخلص رہیں گے اور محبت سے پیش آئیں گے تو ان کے دلوں میں خود بہ خود ہمارے لئے محبت و نرمی پیدا ہو جائے گی۔

دراصل سسرالی رشتے نبھانے کے لیے صبر، ایثار، اعلیٰ ظرفی، فراخ دلی اور وسعت قلب جیسی صفات کو اپنے اندر پروان چڑھانے کی ضرورت ہے، تاکہ کسی بھی تلخی کا سامنا کئے بغیر خوش اسلوبی کے ساتھ زندگی کا سفر طے کیا جا سکے۔

آئی سمجھ میں! ماریہ نے دونوں چھوٹی بہنوں کو دیکھتے ہوئے کہا… آ تو گئی آپ کی بات سمجھ میں مگر…یہ بہت مشکل کام ہے۔ چلیں! ہم لوگ آج سے ہی اس کی تیاری شروع کر دیتے ہیں، تاکہ وقت آنے پر مشکل نہ ہو۔

کیا خیال ہے فائقہ…؟ نہال نے فائقہ کی طرف دیکھا اور دونوں بہنیں مسکرانے لگیں۔

تازہ ترین