قصور کی تحصیل چونیاں میں 3 بچوں کے اغواء و قتل کے واقعات پر شہری مشتعل ہوگئے اور پولیس اسٹیشن پر حملہ کر دیا، جبکہ ٹائر جلا کر راستے بھی بند کردیے ہیں۔
چونیاں میں فضا سوگوار ہے، انجمن تاجراں اور چونیاں بار ایسوسی ایشن کی اپیل پر ہڑتال کی جارہی ہے جبکہ کاروباری مراکز بند ہیں۔
تحصیل چونیاں میں مشتعل عوام نے احتجاج کے دوران پولیس کے خلاف نعرے بازی کی اور پولیس اسٹیشن پر پتھراؤ کیا ، جبکہ پولیس نے تصادم سے گریز کرتے ہوئے مشتعل عوام دیکھ کر تھانے کے گیٹ بند کر دیے۔
مظاہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ بچوں کے قاتلوں کو فوری گرفتار کیا جائے۔
دوسری جانب آئی جی پنجاب کی ہدایت پر قائم 6 رکنی کمیٹی نے تحقیقات شروع کردی ہیں، کمیٹی میں ڈی پی او قصورعبدالغفار قیصرانی،ایس پی انویسٹی گیشن قصور شہبازالٰہی شامل ہیں، جبکہ ایس پی قدوس بیگ، اے سی پی ننکانہ، سی ٹی ڈی رکن اور اسپیشل برانچ کے ڈی ایس پی بھی کمیٹی کاحصہ ہیں۔
ڈی پی او قصور عبدالغفار قیصرانی کا کہنا ہے کہ پولیس نے 9 مشکوک افراد کوحراست میں لے لیا ہےجن کے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے جا رہے ہیں، 24گھنٹے میں حقائق سامنے آنے کی امید ہے۔
واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ غمزدہ خاندانوں کو انصاف دلانا حکومت کی ذمہ داری ہے، معصوم بچوں کے قتل پر ہر آنکھ اشکبار ہے اورحکومت غمزدہ خاندانوں کے ساتھ ہے اور کھڑی رہے گی ۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ کیس کو جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا اورانصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے، انہوں نے کہا ہے کہ جن درندہ صفت ملزمان نے یہ ظلم کیا ہے وہ قانون کے مطابق قرار واقعی سزا سے نہیں بچ پائیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال 9 جنوری 2018 کو قصور میں ہی ننھی زینب کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر اس کی لاش کو کوڑے کے ڈھیر میں پھیک دیا گیا تھا جس کے بعد شدید عوامی ردعمل سامنے آیا اور قتل کے 14 دن بعد مرکزی ملزم عمران کی گرفتاری عمل میں آئی۔
دوران تفتیش ملزم عمران نے زینب سمیت 8 بچیوں کے ساتھ زیادتی اور ان کے قتل کا اعتراف کیا جسے بعد ازاں گزشتہ سال 17 اکتوبر کو کوٹ لکھپت جیل میں تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔