’فورٹی رولز آف لو‘(Forty rules of love) ترکی اور انگریزی کی مشہور ناول نگار ایلف شفق کی ایک بہترین تخلیق ہے جس میں انہوں نے مولانا جلال الدین رومی اور شمس تبریز کی دوستی اور تصوف کو بیان کیا ہے۔
اس ناول میں انہوں نے 8 سو سال قدیم رومی و شمس کی محبت کو اکیسویں صدی کے ایک کردار کے ذریعے نہایت دلچسپ انداز میں تحریر کیا ہے۔
مصنفہ کا تعارف
’فورٹی رولز آف لو‘ کی مصنف ایلف نے 25 اکتوبر 1971ء کو فرانس میں ایک ترک گھرانے میں آنکھ کھولی، والدین میں علیحدگی کے بعد وہ اپنی والدہ کے ساتھ رہیں، ایلف نے تعلیم کے مدارج اسپین، امریکا اور برطانیہ میں طے کیے۔
فورٹی رولز آف لو کا پاکستان میں غالباً 2017ء میں اردو ترجمہ ہوا جسے نہایت پذیرائی حاصل ہوئی، بہترین اندازِ بیاں اور قاری پر ایک مسحور کن اثر چھوڑ جانے والے اس ناول کے ترجمے کے ساتھ مترجم نے نہایت انصاف کیا ہے اور اس بات کا پورا خیال رکھا ہے کہ ناول اپنا حقیقی اثر کھو نہ دے۔
’فورٹی رولز آف لو‘ ایک جائزہ
یہ ناول ایک طرف مولانا روم اور شمس تبریز کے مابین تعلق اور جذب و مستی کو بیان کرتا ہے اور مولانا روم کی عوامی پذیرائی سے گوشہ نشینی تک کا سفر بیان کرتا ہے تو دوسری جانب ایک ایسی خاتون کی کہانی بھی بیان کرتا ہے جو اپنی زندگی میں تمام آسائشوں کی موجودگی کے باوجود طمانیت کی کھوج میں ایک ایسے اجنبی سے رابطے میں رہنے لگتی ہے جو اسے شمس تبریز جیسے خیالات و احساسات کا مالک دکھائی دیتا ہے اور وہ اس کی شخصیت کے سحر میں کھو کر اپنے خاندان کو چھوڑ کر راہِ عشق اختیار کر بیٹھتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ شمس تبریز کے چالیس اصولوں کو ناول کے مختلف کرداروں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی بہترین کوشش کی گئی ہے۔
صرف اتنا نہیں بلکہ ناول میں مزید بیبرس، مدحوش سلیمان، گل صحرا جیسے کرداروں کا اضافہ کر کے مصنفہ نے صوفی ازم کو اپنے تخیل کے کینوس پر خوب رنگا ہے۔
صوفی ازم، تصوف اور روحانیت کے سفر پر چلنے کے لیے ایک شمع کا کردار ادا کرنے والا یہ ناول یقیناً ہماری زندگیوں کو بدلنے اور ان میں مثبت تبدیلیاں لانے کا باعث ہے۔
1244ء میں مولانا رومی کی جب شمس تبریز سے ملاقات ہوئی تو ان کی عمر 37 برس اور شمس تبریز کی عمر 60 برس تھی۔
ناول میں مولانا روم اور شمس تبریز کی ملاقات کا احوال بھی انتہائی دِل چسپ پیرائے میں پیش کیا گیا ہے، حضرت شمس تبریز نےصوفیانہ طبیعت کے باعث کسی ایک جگہ مستقل بسیرا نہ کیا، وہ جہاں بھی جاتے، امن و محبّت کے پیام بر بن کر جاتے، دنیا کا چپّہ چپّہ گھومتے، جب وہ 1244ء میں قونیہ پہنچے، تو مولانا روم کے علم و حکمت کے چرچے سُن کر ان سے ملنے کا اشتیاق ہوا۔
محبت کے چالیس اصول دراصل ’’Making of Rumi‘‘ ہے، رومی کی عالم سے عاشق بننے کی داستان ہے، ظاہریت سے باطنیت کی طرف سفر کی تفصیلات ہیں، شمس تبریز کی قربت نے رومی کے من کو مالا مال کیا تو جدائی ایسی شاعری کی تخلیق کا باعث بنی جس نے اسے لافانی شہرت بخشی۔
عشق کے چالیس اصول
ناول میں شمس تبریزی کے عشق کے چالیس اصولوں کی جھلک کچھ یوں دکھائی گئی ہے۔
1: اللّٰہ کی نشانیاں کائنات کی ہر شے میں موجود ہیں۔
2: اللّٰہ کی ذات کسی ایک جگہ محدود نہیں، اسے ڈھونڈنا ہو، تو کسی کامل عاشق کے دِل میں تلاش کرو۔
3: حقیقی ایمان دِل کی پاکیزگی سے مشروط ہے۔
4: نفرت اور غرور دِل کے ایسے داغ ہیں، جنہیں دنیا کا پاک ترین پانی بھی صاف نہیں کر سکتا۔
5: لباس کی پاکیزگی کے لیے پانی اور دِل کی پاکیزگی کے لیے محبّت ضروری ہے۔
6: ہر گزرتا لمحہ جنّت اور دوزخ کا فیصلہ کرتا ہے، سو ان دونوں کی فکر چھوڑ کر اپنے عمل کی طرف توجّہ دو۔
7:انسان اور اللّٰہ کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں، بس یقین کی قوت پیدا کرو۔
8: لوگوں کا دِل دُکھا کر اللّٰہ کی خوشنودی کی طلب کم عقلی ہے۔
9: دِل اور دماغ کے راستے جدا ہیں، دِل ہمیشہ سچائی کے راستے کی نشان دہی کرتا ہے، گناہ اور بدی کے مقابلے کے لیے دِل کا کہا مانو اور اسی کو رہبر بناؤ۔
10: ماضی صرف ایک یاد ہے اور مستقبل ایک سراب ہے، آج میں جینا سیکھو، وہی زندگی ہے۔
11: تم اگر یہ چاہتے ہو کہ تمہارا ایمان چٹان کی طرح مضبوط ہو جائے تو دل کو موم کی طرح پگھلنے پر مجبور کر دو۔
’صوفی رقص‘
مولانا روم صوفی رقص (Whirling Dervish) کے موجد ہیں، ایلف شفق نے شمس تبریز اور مولانا روم کے روحانی عشق کی داستان میں صوفی ازم کا فلسفہ پیش کیا ہے جو انسانیت سے محبت کرنے کا فلسفہ ہے۔
مولانا روم، حضرت شمس کی صحبت اختیار کرکے مکمل طور پر درویش ہوگئے، اہلِ قونیہ نے ملی بھگت کر کے حضرت شمس کو کنویں میں پھینکوا دیا ۔
بظاہرحضرت شمس تبریز، مولانا کی زندگی سے نکل گئے، لیکن مولانا روم کی شاعری میں آج بھی وہ زندہ و تابندہ ہیں۔
مولانا سے جُدائی کے بعد حضرت شمس کی زندگی کے بارے میں تاریخ خاموش ہے، اُن کے مزار کے بارے میں بھی مختلف روایات ہیں، بعض کتب میں ایران اور پاکستان کے شمالی علاقے میں موجود مزار کو بھی، اُن کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔
حضرت شمس کے جانے کے بعد مولانا کی زیادہ توجّہ شاعری پر مرکوز ہوگئی۔ دنیا آج مولانا کو ایک درویش شاعر کی حیثیت سے جانتی ہے، مولانا نے 1273ء میں وفات پائی اور اُن کا مزار قونیہ میں موجود ہے۔
ناول’فورٹی رُولز آف لو‘ کی شہرت
ترک نژاد مصنفہ ایلف شفق کا یہ ناول پہلی دفعہ 2009ء یا 2010ء میں شائع ہوا تھا، اس ناول نے گزشتہ دو، تین سال میں زیادہ شہرت پائی ہے۔
’فورٹی رولز آف لو‘ ایلف شفق کی بین الاقوامی شہرت یافتہ تصنیف ہے بنیادی طور پر ترک زبان میں لکھا گیا تھا جو کہ دنیا کی کئی زبانوں میں شائع ہوا اور ترکی میں اس کی 750000 کاپیاں فروخت ہوئیں جو کہ ترکی کا بیسٹ سیلنگ ناول رہا ہے۔