• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طب کے میدان میں پاکستان کی پہچان ’حکیم محمد سعید‘

ممتاز قلم کار ستار طاہر ، حکیم محمد سعید کی زندگی پر تحریر کردہ اپنی ایک کتاب میں ان کی آخری خواہش اس طرح بیان کرتے ہیں۔ ’’میں ایسے حال میں فرشتہ موت کا استقبال کرنا چاہتا ہوں کہ میری نگاہوں کے سامنے اسکول اور پانچ ہزار بچے تعلیم پارہے ہوں۔

یونیورسٹی امتیازات کے ساتھ ہزار ہا نوجوانوں کو انسانِ کامل بنارہی ہو اور یہ جوان دنیا بھر میں پھیل کر آوازِ حق بلند کرنے کی تیاری کے لیے کمر بستہ ہوں‘‘۔ حکیم محمد سعید کی خوش قسمتی کہ ان کی یہ خواہش ان کی زندگی میں پوری ہوئی۔ انھیں 17اکتوبر 1998ء کو کراچی میں شہید کردیا گیا تھا۔

حکیم محمد سعید، پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ معالج، سماجی کارکن اور مصنف تھے۔دو برس کی عمر میں ان کے والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تھا۔ بچپن شرارتوں میں بیتا پھر اظہارِ ذہانت شروع ہوا۔ لکنت سے زبان لڑکھڑاتی تھی تو اپنی قوتِ ارادی اور مسلسل مشق سے ہکلاہٹ پر قابو پایا۔ مذہب اور طب و حکمت پر 200سے زائد کتب تصنیف و تالیف کیں۔ وہ 1993ء سے 1996ء تک سندھ کے گورنر بھی رہے۔

حکیم محمد سعید کے والد حکیم عبدالمجید کو ادویات کے خواص میں خاص دلچسپی تھی۔ شوق اور مہارت کے باعث انھوں نے مسیح الملک حکیم اجمل خاں کے قائم کردہ ہندوستانی دواخانے میں ملازمت کرلی۔ اس عرصے میں طب کا مطالعہ بڑی گہرائی اور طب کی متعدد کتابوں کا مطالعہ بڑی باریک بینی سے کیا۔ 

آپ کو جڑی بوٹیوں سےگہرا شغف اور ان کی پہچان میں ملکہ حاصل تھا۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نباتات کے میدان میں اُترنے کا نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ بیماریوں کی شفا کے لیے ہندوستان بھر سے جڑی بوٹیاں حاصل کرنے کی ٹھانی۔ بقول حکیم محمد سعید، ’’میرے والد ایک بلند پایہ نبض شناس اور جڑی بوٹیوں کے ماہر تھے‘‘۔ 

حکیم محمد سعید کے والد نے 1904ء میں اپنے دواخانہ کی بنیاد ڈالی اور اس کے ساتھ ساتھ جڑی بوٹیوں کی تجارت بھی شروع کی۔ دواخانہ کو چلانے کے لیے حکیم عبدالمجید نے نباتات سے دوائیں بنانا شروع کیں، ان کی اہلیہ نے ہر مرحلے پر اپنے شوہر کا ہاتھ بٹایا۔ ابتدا میں وہ سل بٹے سے نباتات پیس کر ہاتھ سے گولیاں بناتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ان کے دواخانہ کا نام تقسیم ہند سے قبل پورے ہندوستان میں پھیلتا چلا گیا۔

حکیم محمد سعید پہلے صحافی بننا چاہتے تھے لیکن خاندانی کام کو آگے بڑھانے کے لیے اس پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ پاکستان بننے تک ان کا دواخانہ ایشیا میں طبی ادویہ کا سب سے بڑا ادارہ بن چکا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد جب انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت شروع ہوئی تو حکیم محمد سعید نے پاکستان کا رخ کیااور 9جنوری 1948ء کو کراچی آگئے۔ 

اپنی ہجرت کے حوالے سے حکیم سعید کا کہنا تھا،’’میری والدہ محترمہ کو سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ میں نے ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میری والدہ کو اس رائے سے اِتفاق نہ تھا۔ میں والدہ ماجدہ سے گزارش کرتا تھا کہ فکری طور پر ہندو قیادت میں زندگی نہیں گزار سکتا۔ پاکستان جا کر اسلام کے لیے کام کروں گا‘‘۔

پچاس روپے مہینہ پر ایک دکان اور ساڑھے بارہ روپے ماہانہ پر فرنیچر کرائے پر لے کرانھوں نے اپنے کام کا آغاز کیا۔ پھر ناظم آباد میں المجید سینٹر کی بنیاد ڈالی، جس نے ان کی فاؤنڈیشن کی راہ ہموار کی۔ حکیم محمد سعید نے اس ادارے کو بھی خدمتِ کے لیے باقاعدہ وقف کردیا۔ 1953ء سے لے کر 1963ء تک انھوں نے سندھ یونیورسٹی میں آرگینک کیمسٹری کی تعلیم دی۔ جب حکمت کا مذاق اُڑایا گیا تو انھوں نے اس کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور اس کا جواب اپنے قلم سے دیا، پھر بالآخر حکمت کو قانونی حیثیت دلوائی۔

محترمہ فاطمہ جناح نے14اگست 1958ء کو ان کے ادارے کے طبی کالج کا باقاعدہ افتتاح کیا، جہاں سے ہزاروں معالج فارغ ہوکر لوگوں کا علاج کررہے ہیں۔حکیم محمد سعید نے طب اور ادویہ سازی کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کیا۔

1985ء میں انھوں نے یونیورسٹی قائم کی۔ حکیم محمد سعید نے صرف حکمت کو فروغ نہیں دیا، ان کے ادارے کا جائزہ لیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے، کون سا شعبہ نہیں ہے اس میں۔ میڈیکل کالج، ہربل میڈیسن، سوشل سائنسز، آئی ٹی، مینجمنٹ، لا، انجینئرنگ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ پاکستان میں قائم لائبریروں میں سے ایک بڑی لائبریری بھی موجود ہے۔ سائنس و ثقافت اورعلم و حکمت کا یہ شہر آج بھی اس شخص کی یاد دلاتا ہے، جس کے عزم وعمل نے ریگستان کو ایک علمی نخلستان میں بدل دیا۔

حکیم محمد سعید گورنر سندھ بننے کے بعد بھی پاکستان بھر میں اپنے مریضوں کو باقاعدگی سے دیکھتے اور ان کا مفت علاج کرتے رہے۔ اسی طرح ضیاءالحق (مرحوم) کے دور میں وہ وزیر بننے کے بعد بھی کراچی ، لاہور، سکھر اور پشاور میں مطب کرتے رہے۔ انھوں نے سرکاری گاڑی نہیں لی اور نہ ہی رہائش، یہاں تک کہ غیرملکی زرِ مبادلہ جو انہیں سرکاری خرچ کے لئے ملا تھا، وہ بھی قومی خزانے کو واپس کردیا۔

ممتاز قلم کار ستار طاہر ، حکیم محمد سعید کی زندگی پر تحریر کردہ اپنی ایک کتاب میں ان کی آخری خواہش اس طرح بیان کرتے ہیں۔ ’’میں ایسے حال میں فرشتہ موت کا استقبال کرنا چاہتا ہوں کہ میری نگاہوں کے سامنے اسکول اور پانچ ہزار بچے تعلیم پارہے ہوں۔ 

یونیورسٹی امتیازات کے ساتھ ہزار ہا نوجوانوں کو انسانِ کامل بنارہی ہو اور یہ جوان دنیا بھر میں پھیل کر آوازِ حق بلند کرنے کی تیاری کے لیے کمر بستہ ہوں‘‘۔ حکیم محمد سعید کی خوش قسمتی کہ ان کی یہ خواہش ان کی زندگی میں پوری ہوئی۔ انھیں 17اکتوبر 1998ء کو کراچی میں شہید کردیا گیا تھا۔

تازہ ترین