خاندانِ سادات کے چشم و چراغ اور پیرانِ پگارا کے مورثِ اعلیٰ اور جدِ امجد حضرت سید محمد بقا شاہ شہید ایک جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ نقشبندی اور قادری سلسلہ کے ایک کامل بزرگ اور سندھی زبان کے بلند مرتبہ شاعر تھے۔ان کا سلسلۂ نسب حضرت امام حسین ابن علی ؓسے جا ملتا ہے۔ آپ کے آبا و اجداد میں سے جو بزرگ سب سے پہلے سندھ میں تشریف لائے وہ حضرت سید علی مکی ہیں۔ روایات کے مطابق سید علی مکی، محمد بن قاسم کے ساتھ 711ء میں یا اس کے قریب سندھ میں تشریف لائے۔
نامور مورخ، اعجاز الحق قدوسی نے اپنی کتاب تذکرہ صوفیائے سندھ میں تحریر کیا ہے کہ سید علی مکی اپنے ایک سو رفقا کے ہمراہ عراق کے شہر سامرہ سے ہجرت کر کے تبلیغ اور اشاعتِ اسلام کے لیے سندھ تشریف لائے اور پرگنہ سیوستان (موجودہ ضلع جامشورو) میں بھگو ٹھوڑو نامی پہاڑ کے دامن میں دریا کے کنارے ایک پُر فضا اور پرسکون بستی میں رہائش اختیار کی۔ یہ گاؤں آگے چل کر سید علی مکی کے نام پر ’’لک علوی‘‘ کے نام سے معروف ہوا اور ان کی اولاد ’’لکیاری سادات‘‘ کے نام سے مشہورہوئی۔ سلسلہ سادات کا یہ پہلا خانوادہ تھا جو سندھ میں وارد ہوا تھا۔
لکیاری سادات کی شرافت و نجابت اور فضائل کا تذکرہ سندھ کے مورخین اور تذکرہ نگار نہایت اہتمام سے کرتے ہیں۔ اسی لکیاری سادات کے چشم و چراغ سید محمد بقا شاہ شہید کی ولادت بروز جمعہ یکم شعبان 1135ھ بمطابق7 مئی 1723ء کو سندھ کی ریاست خیرپور کے قصبہ رسول پور میں ہوئی۔ان کے والد کا نام سید محمد امام شاہ تھا۔
سید محمد بقانے صغر سنی میں ہی دینی تعلیم کی تکمیل کر لی تھی۔وہ علمِ شریعت کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد علمِ طریقت کی تحصیل کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کے لیے انہوںنے سلسلۂ قادریہ کے بزرگ حضرت پیر عبد القادر حسینی جیلانی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ان کے یہ مرشد صوبہ پنجاب میں ضلع جھنگ کے ایک قصبہ کوٹ سدھانہ کے رہنے والے تھے اور شیخ صالح شاہ کے مرید اور خلیفہ تھے۔
آج کل یہ مقام درگاہ چناہ شریف کے نام سے مشہور ہے۔ اپنی روحانی تشنگی اور پیاس بجھانے کے لیےسید محمد بقا نے صرف اسی پر قناعت نہیں فرمائی بلکہ سلسلۂ نقشبندیہ کے فیوض و برکات سے استفادے کے لیے انہوں نے اس وقت سندھ کی ریاست خیرپور کے ایک کامل بزرگ حضرت مخدوم محمد اسماعیل پریا لوئی (جو قصبہ پریالو میں سکونت پذیر تھے) کے ہاتھ پر بیعت کی اور سلسلۂ نقشبندیہ کے فیوض سے اپنے قلب کو منور کیا۔ مخدوم محمد اسماعیل کے انتقال کے بعد سید محمد بقا نے اپنی ارادت و عقیدت کا سلسلہ سندھ کے نامور صوفی بزرگ مخددم احمدی سے منسلک کیا اور ان سے بھی اکتسابِ فیض کیا۔
الغرض وقت کے اکابرین، مشائخ اور عظیم صوفیا سے کسبِ فیض کر کے آپ طریقت و حقیقت کے اعلیٰ مقام پر پہنچ گئے۔ علمِ شریعت و طریقت کی تکمیل کے بعد آپ مخلوقِ خدا کو فیض پہنچانے کی طرف متوجہ ہوئے۔چناں چہ دینی علوم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ علمِ باطن اور تصوف کی تعلیم کا سلسلہ بھی انہوں نے شروع کیا اور مخلوق کو علمِ ظاہری و باطنی سے خوب سرفراز کیا۔ سید محمد بقاکی مستقل رہائش رسول پورشہر میں تھی لیکن بعد میں وہ اس جگہ سے ہجرت فرما کر موضع رحیم ڈنو کلہوڑو واقع دیہہ فرید آباد، ریاست خیرپورمیں آکر آباد ہو گئے۔
سید محمد بقاکومذہبی و علمی کتابوں سے بے پناہ انسیت تھی۔ چوں کہ اس زمانہ میں پریس وغیرہ نہیں ہوتے تھے، کتابیں ہاتھ سے ہی تصنیف کی جاتی تھیں، اس لیےان کی نظروں میں ان کتابوں کی قدربہت زیادہ تھی۔ کتابوں کی قدر و منزلت کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی وہ تبلیغ و اشاعتِ دین کے سلسلے میں کسی دوسرے شہر تشریف لے جاتے تو ان قیمتی کتابوں کی گٹھری ان کے ہمراہ ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ اسی طرح وہ کتابوں کی گٹھری سر پر رکھے سفر کر رہے تھے کہ راستے میں ڈاکوؤںنے گٹھری میں مال و دولت سمجھ کر آپ پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ جان لیوا ثابت ہوا اور آپ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔
ڈاکوؤں نے جب اس گٹھری کی تلاشی لی تو سوائے کتابوں کے اس میں کچھ نہ ملا۔ان کی شہادت کا یہ واقعہ 9 ربیع الثانی 1198ھ بمطابق2 مارچ 1784ء بروز منگل کو پیش آیا۔سید محمد بقا کا مزار ضلع خیرپور میں مرجعِ خاص و عام ہے۔ان کی اولاد میں اٹھارہ فرزند پیدا ہوئے جن میں سید محمد راشد شاہ روضہ دھنی، سید عبد الرسول شاہ، سید محمد سلیم شاہ اورسید علی مرتضیٰ شاہ زیادہ مشہور ہیں۔ ان کے فرزند سید محمد راشد شاہ روضہ دھنی سندھ کے نامور وصوفی بزرگ گزرے ہیں اور ان ہی سے راشدی خاندان کا سلسلہ شروع ہوا۔