• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹرخواجہ محمد اکرام الدین

 اردو زبان کے فروغ میں مشاعروں کی بڑی اہمیت رہی ہے ۔کسی بھی زبان کی ترقی و ترویج کے لیے ضروری ہوتاہے کہ وہ کثرت سے بولی اور سمجھی جا ئے۔اردو زبان کو اس مقام تک پہنچانے میں کئی سماجی اداروں نے اہم کردار نبھایا ہے ۔ جن میں خانقاہ ،دربار اوربازار کے علاوہ مشاعروں نے بھی نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ مشاعرے سے عام طور شعری محفل کا تصور ابھرتا ہے جو بہت حد تک صحیح بھی ہے لیکن اس کے علاوہ بھی کئی تہذیبی اور معاشرتی سیاق وسباق بھی ہیں۔ان مشاعروں نے تہذیبی اور ثقافتی روابط کواستحکام بخشنے اور لوگوں کو آپس میں ملنے جلنے کا ایک خوبصورت موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ان کے آغازکا یہ وہ زمانہ ہے جب عوامی سطح پر تفریحی مشاغل کا کوئی تصور نہیں تھا، صرف حکمراں اور نوابین کو یہ مواقع میسر تھے۔

ان مشاعروں نے نہ صرف زبان و ادب کے دائرے کو بھی وسیع کیا ۔بلکہ ادب اور عوام کے درمیان پُل کا کام بھی کیا۔اس طرح ادب کا رشتہ سماج سے استوار ہونا شروع ہوا۔مشاعروں سے عوام کی دلچسپی کا سبب یہ تھا کہ نہ صرف ذہنی تفریح و تفنن کا ذریعہ تھے بلکہ عوامی جذبات کے بھی نمائندہ سمجھے جاتے تھے، کیونکہ اصناف ادب میں شاعری سب سے زیادہ دلکشی اورسحر آفرینی رکھتی ہے۔ اسی لیے عوام کو شعرو شاعری سے ہمیشہ دلچسپی رہی ہےاور مشاعروں نے ہمیشہ لوگوں کواپنی طرف مائل کیاہے۔شاعری میں جس طرح جذبات و احساسات کی ترجمانی ممکن ہے وہ نثر میں نہیں ہو سکتی۔اکثر اشعار اس طرح جذبات و کیفیات کی عکاسی کرتے ہیں کہ سننے والا اپنے دل کی دھڑکنوں کو محسوس کرتا ہے۔ شاعری کی یہ کرشمہ سازی ایک طرف خود شاعر ی کو آفاقیت بخشتی ہے تو دوسری جانب عوام کو ادب سے قریب تر لانے کی بھی کوشش کرتی ہے۔

مشاعرے کی تہذیبی اور ادبی اہمیت پر مزید روشنی ڈالنے سے قبل اس کی ابتدا اور ترویج کی مدارج کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ دنیا میں اردو اور فارسی زبان کو ہی اِس وقت یہ امتیاز حاصل ہے کہ شعرا کے کلام کو لوگ بڑے اجتماعات میں دلچسپی سے سنتے ہیں ،حالانکہ عربی زبان سے اس روایت کا آغاز ہوتا ہے۔مگر مقبولیت اور چلن کے اعتبار سے اردومیں اس کی روایت زیادہ طویل اور مستحکم ہے۔زمانہٴ جاہلیت میں شعر وشاعری کا چرچہ عوامی سطح پر کس قدر تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے عرب کے قبائلی تمدن میں ہر قبیلے کے اپنے شعرا ہوا کرتے تھے اور جس قبیلے کے پاس جتنا بڑا شاعر ہوتا تھا اس کے لیے وہاتنا ہی فخر و امتیاز کاباعث ہوتا تھا،اسی لیے ادب کی سرپرستی یا شعرا کی سرپرستی کے نقطہٴ نظر سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلے ادب کی سرپرستی بھی اسی دور نے کی ۔

اس عہد میں تمام فنون لطیفہ میں شاعری کو خاص وقار حاصل تھا۔اسی لیے جن شعرا کے کلام کو سب سے زیادہ پسند کیا جاتا تھا اسے کی دیوراوں پر آویزاں کر دیا جاتاتھا،مگر یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ عکاظ کے میلے میں جو بڑے شعرا ءتھے وہ اپنا کلام خود نہیں سناتے تھے بلکہ ان کے روای ہوا کرتے تھے۔ اس میلے کے بعد عرب میں مجلس میں شعر پڑھنے کی یہ روایت اسلام کی آمد کے بعد بھی برقرار رہی ،مگر اب اسے عوامی تفریح کا ذریعہ نہیں سجمھا گیا بلکہ شاعری کو پاکیزگی اورنیک جذبات کے اظہار کا وسیلہ قرار دیا گیا۔لیکن زمانہٴ جاہلیت کی وہ شعری روایت برقرا ر نہیں رہی جن میں عاشقانہ جذبات و کیفیات کو تلذذ کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا۔ اس طرح یہ روایت کمزور پڑتی گئی ۔

بعدازاں ایران میں شاعری کو دربار میں فروغ ملا اور بادشاہ کے سامنے ان کی شان میں قصائد پڑھنے کی روایت اتنی مضبوط ہوئی کہ عوامی مجلسوں کے بجائے شعرانے اپنا ا زور قلم اورزور طبع قصائد پر صرف کر دیا۔ ایران کے مقابلے ہندستان میں اس کی روایات ذرا مختلف رہی ہے ۔ہندوستان میں ادب اور شاعر ی کوسب سے پہلے صوفیا نے جگہ دی اور یہیں سےشاعری پروان چڑھتی ہے۔نظام الدین اولیا کے دربار میں امیر خسرو کی شاعری کے علاوہ متصوفانہ کلام اور محفل سماع میں پڑھے جانے والے کلام اس حقیقیت کے غماز ہیں کہ صوفیا نے اس زبان کو اپنا کر اس کے فروغ کے دروازے کھول دیئے۔صوفیا کے بعد اگر دربار کا جائزہ لیں تو اس نے بھی زبان کی سرپرستی کی اور زبان و ادب کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔لیکن عوامی سطح تک رسائی کے نقطہٴ نظر سے دیکھیں تو کئی روایتوں کے ساتھ ساتھ اردو مشاعروں نے سب سے اہم کردا ر ادا کیا۔

س طرح یہ کہاجائے توبے جا نہ ہوگا کہ ہماری مشترکہ تہذیب کو جو ثقافتی ورثے ملے، ان میں ایک وقیع ورثہ ’’ مشاعرہ ‘‘ بھی ہے۔ مشاعرہ یعنی شاعروں کا ایک ایسا اجتماع جس میں شائقین سخن کو اپنا کلام سُنا کر دادِ سخن لیں ۔ہندوستان میں ایسی روایت اردو کے علاوہ اور کسی زبان میں نہیں ملتی ، جس میں شعرا کا کلام سننے کے لیے عوام کا ہجوم ہو اور شاعر عوام کی بھیڑ کے درمیان کھڑے ہو کر اپنا کلام سنائے اور اس بھیڑ کے شور ِبے ہنگام سے خراج تحسین وصول کرے۔آج مشاعرے کی جو روایت عام ہے وہ ماضی کےمشاعروں سے بہت مختلف ہے کیونکہ جو تہذیب و آداب مشاعرے کی شناخت ہوا کرتے تھے ،اب وہ نئی تہذیب اور شاعروں کے ہاتھوں مسمار ہو رہے ہیں،کیونکہ آج کے مشاعروں میں ادب کم اور فن کا مظاہرہ زیادہ ہو گیا ہے۔ ماضی کے مشاعروں کی خصوصیت یہ تھی کہ مشاعرے عوام کے اندر ادب کا ذوق پیدا کرتے تھے ،اور اب عوام کے ذوق اور ذہنیت کو سامنے رکھ کر کلام لکھے جاتے ہیں ۔گویا اب ہمارا معاشرہ مشاعرے کے مزاج کو طے کرتا ہے،اسی لیے عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مشاعرے کے شاعر اول درجے کے شاعر نہیں ہوتے،حالانکہ جب ہم ماضی کی جانب نگا ہ ڈالتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ان مشاعروں کو شعرا ءنے ہی شروع کیا۔ ان مشاعروں کے ذریعے نئے شعرا ءکی تربیت کی گئی۔اور مشاعروں نے نہ صرف انفرادی سطح پر یہ کام کیا بلکہ مختلف اسکول کے طور پر ادب کے نئے رجحان و رویے کو بھی طے کیا۔

یہ مشاعرے نہ صرف عوامی ادراے تھے بلکہ ان مشاعروں نے اصلاح سخن کی بھی ایک عظیم روایت قائم کی، جس سے شعر فہمی اور شعر گوئی کو رواج ملا۔لیکن جیسے جیسے یہ روایت آگے بڑھتی گئی اس میں تسابق اور تقابل کے جذبات تحقیر و تذلیل میں تبدیل ہوتے گئے۔اور آج اس کی جو شکل ہے وہ سب جانتے ہیں۔لیکن ہر روایت جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے اس میں کچھ مفید اور خوشگوار تبدیلیاں بھی آتی ہیں۔ آج مشاعرےکی روایت بہت آگےبڑھ چکی ہے۔ اب یہ سماجی روابط کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

تازہ ترین