• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فردوس کی معافی قبول، نیا نوٹس جاری


وزیرِ اعظم عمران خان کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے توہینِ عدالت نوٹس پر اسلام آباد ہائی کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی، جسے عدالت نے قبول کر لیا۔

وزیرِ اعظم عمران خان کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان توہین عدالت کے شوکاز نوٹس پر صبح سویرے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے وزیرِ اعظم عمران خان کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے فردوس عاشق اعوان سے کہا کہ عدالت آپ کی معافی قبول کرتی ہے، آپ کے خلاف توہینِ عدالت کا پرانا شوکاز نوٹس واپس لے کر کرمنل توہین عدالت کا نیا نوٹس جاری کیا جا رہا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ فردوس عاشق اعوان نے زیرِ التواء کیس پر اثر انداز ہونےکی کوشش کی، تمسخر اڑایا کہ کاش عام لوگوں کے بارے میں بھی عدالت فیصلے کرے، بہتر ہوتا کہ آپ عدالتوں کو سیاست سے دور رکھتیں۔

عدالتِ عالیہ نے کیس کی منگل کو سماعت کرنے اور فردوس عاشق اعوان کو پیر تک تحریری جواب داخل کرانے کا حکم دے دیا۔

اس سے قبل چیف جسٹس نے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سے کہا کہ جب آپ عدلیہ سے لوگوں کا اعتماد اٹھانے کی کوشش کریں گی تو یہ لوگوں کے لیے اچھا نہیں ہو گا، عدالتی فیصلے سے کچھ لوگ خوش ہوتے ہیں اور کچھ خفا ہوتے ہیں، ارجنٹ پٹیشن لے کر کوئی وکیل رات 3 بجے بھی آیا ہو تو کبھی انکار نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ آپ کو 2 وجوہات پر نوٹس جاری کیا، زیرِ التوا معاملے پر آپ نے اپنے بیان سے اثر انداز ہونے کی کوشش کی، آپ میرے بارے میں جو مرضی کہیں مگر یہاں عدالت کو اسکینڈلائز کرنے کا معاملہ ہے، میری ذات سے متعلق جو کچھ کہا جاتا ہے میں اس کی پرواہ نہیں کرتا، آپ نے زیرِ سماعت کیس کو متنازع بنانے کی کوشش کی، آپ حکومتی نمائندہ ہیں، آپ سے اس بات کی توقع نہ تھی۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ کی ہدایت پر فردوس عاشق اعوان نے بلند آواز میں کمرۂ عدالت میں ہائی کورٹ رولز پڑھ کر سنائے۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کوئی بھی ارجنٹ معاملہ عدالت آ سکتا ہے، ہم کبھی بھی چھٹی پر نہیں ہوتے، آپ کے اپنے میڈیکل بورڈ نے کہا ہوا ہے کہ کنڈیشن تشویشناک ہے، آپ کو وزارتِ قانون نے نہیں بتایا تو آپ ان وکلاء سے پوچھ لیں، آپ نے کبھی پتہ کیا ہے کہ اس کورٹ نے آج تک کتنے کیسز نمٹائے؟ مجھے اپنے ساتھی ججز پر فخر ہے، ہائی کورٹ نے تیزی سے کیسز نمٹائے۔

فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ مجھے بھی بات کرنے کی اجازت دیں، میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ کوئی ایسی بات کہوں جس سے عدلیہ کی توقیر میں کمی ہو، میں غیر مشروط معافی مانگتی ہوں، میں مستقبل میں مزید محتاط رہوں گی۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ عدلیہ کی توقیر میں کمی آپ کے الفاظ سے نہیں ہوتی، ہمارے فیصلوں سے عدلیہ کی توقیر میں کمی ہو سکتی ہے، کوئی کہتا ہے کہ ڈیل ہو گئی، پوچھیں کیا کسی نے ججز کو اپروچ کیا ہے؟ جج پر ذاتی تنقید پر عدالتیں ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: دنیا بھر میں توہین عدالت کے قوانین کیا ہیں؟

عدالتِ عالیہ نے معاونت کے لیے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد طارق جہانگیری کو بھی طلب کیا تھا۔

واضح رہے کہ عدالت عالیہ کی جانب سے 30 اکتوبر کو فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا تھا۔

ڈپٹی رجسٹرار آفس کی طرف سے جاری شوکاز نوٹس میں کہا گیا تھا کہ فردوس عاشق اعوان نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ نواز شریف کو ضمانت دینے سے مختلف بیماریوں میں مبتلا قیدیوں کی طرف سے درخواستوں کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے گا۔

نوٹس میں کہا گیا کہ فردوس عاشق اعوان نے یہ کہہ کر عدالت کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے کہ عدلیہ نے ایک ملزم کو خصوصی رعایت دینے کے لیے شام میں عدالت لگائی۔

نوٹس میں یہ بھی کہا گیا کہ مذکورہ الفاظ توہینِ عدالت کے زمرے میں آتے ہیں کیوں نہ آپ کے خلاف توہینِ عدالت آرڈیننس 2003ء کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے، آپ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ یکم نومبرکی صبح 9 بجے عدالت میں پیش ہوں۔

تازہ ترین