شاعری اور گانوں کو سننے کی میری حس بہت کمزور ہے، اس لئے یہ یاد بھی نہیں ہوتے، عجب اتفاق ہے کہ نصف صدی سے ملک کی صورتحال آنکھوں کے سامنے ہے، گہرا مشاہدہ، جگ بیتی اور آب بیتی والا معاملہ بھی ہے لیکن کچھ دنوں سے سخت تذبذب کا شکار ہوں کیونکہ کسی پاکستانی فلم میں اداکار ندیم پر فلمائے گئے ایک گانے کے بول ’’کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں، پھر یہ سوچتا ہوں کیوں نہ چپ رہوں‘‘ نہ صرف بار بار زبان سے ادا ہو رہے ہیں بلکہ دماغ میں ایسے گھوم رہے ہیں کہ ملکی صورتحال پر کچھ لکھنے کا تقاضا کر رہے ہیں۔ جب آپ عوام سے رابطے میں رہتے اور اُن کے مسائل سے آگاہ ہوتے ہیں تو آپ کی تحریروں میں یہ عکس نظر آتا ہے۔ عوام سوچتے ہیں کہ قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی بانیٔ پاکستان کی بیماری کے وقت سے ملک کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا، پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں کو راولپنڈی میں ایک جلسے سے خطاب کے آغاز میں ہی اکبر نامی شخص نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا تو اسی لمحہ اس شخص کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اگلی صبح سب کچھ منصوبہ بندی کے مطابق تبدیل ہو گیا، آج تک اس سازش کا معلوم ہونے کے باوجود نہ اصل مجرم پکڑے گئے اور نہ ہی کسی کو سزا ملی۔ بعد میں آنے والوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا حشر ہوا، پھر مادرِ ملت فاطمہ جناح کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی عوام کو ذرا، ذرا یاد ہے۔
چند اور یادیں، 2013کے الیکشن میں نون لیگ کی حکومت کا بننا اور ساتھ ہی الیکشن دھاندلی کے شور کے ساتھ دھرنا سیاست کا آغاز، پاناما کیسز اور نواز شریف کا ہٹایا جانا، نیب کی جیلوں اور عدالتی کارروائیاں اور پھر 2018کے الیکشن کے بعد عمران خان کی حکومت کا قیام، مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ اور گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران نیب کی سرگرمیاں، سابق صدر آصف علی زرداری کو منی لانڈرنگ کیس میں جیل میں بند کرنا، نواز شریف کی جیل یاترا، بیماری اور علاج کی وجہ سے سزا کا معطل ہونا، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی گرفتاری اور کئی دوسرے سیاسی لیڈران پر نیب کیسز اور انہیں جیلوں میں بھیجنا، عدالتوں کی خود مختاری کو مشکوک بنانا اور جج وڈیو اسکینڈلز سامنے آنا، دوسری طرف عام آدمی کا روٹی، صحت، تعلیم اور انصاف کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانا، عوام کے ذہن میں سوال تو پیدا ہوں گے کہ کیا وہ اسی ملک کے باشندے ہیں؟ کیا ان کے کوئی حقوق نہیں، انصاف اُن کے مقدر میں کیوں نہیں، انہیں ڈاکٹر اور دوائی میسر کیوں نہیں، وہ عدالتوں اور انصاف تک رسائی کیوں نہیں حاصل کر سکتے، ’’تعلیم سب کے لئے‘‘ صرف نعروں تک محدود کیوں؟ سارے ٹیکس عام آدمی پر ہی کیوں، وہ ہر عام استعمال کی شے پر ٹیکس دے اور بڑے تاجر ٹیکس کے لئے اپنی رجسٹریشن ہی نہ کرائیں، ووٹ عوام کا ہو اور مزے سیاستدان لوٹیں، ماریں عوام کھائیں اور مزے حکمراں کریں۔ عوام کے لئے جیلیں عقوبت خانے ہوں اور خاص لوگوں کے لئے سسرالی گھر اور گیسٹ ہائوس، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب صرف عوام کے لئے اور حکمرانوں کے کروڑوں کے بل سرکاری خزانے سے ادا کئے جائیں۔ عوام کو بجلی کا میٹر لگوانا ہو یا پانی اور گیس کا کنکشن لینا ہو، رشوت کے بغیر حصول ہی ناممکن ہے اور پھر مہنگائی کا عفریت بھی صرف عوام کو ہی ڈسے۔ جب عوام کا برس ہا برس سے ایسی صورتحال سے واسطہ پڑے تو وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وطن کے لئے جانوں کے نذرانے وہ پیش کریں، ایک مخصوص طبقے کے لئے کروڑوں لوگ بکروں کی طرح ہر وقت قربان ہونے کے لئے تیار ہوں اور عیاشیاں یہ مخصوص طبقہ کرے اور عوام کو ڈرایا جائے کہ آئی ایم ایف سے قرضے نہ لئے تو ملک کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ ایف اے ٹی ایف پاکستان کو بلیک لسٹ کر دے گا تو ملکی معیشت تباہ ہو جائے گی اور یہ صورتحال ہماری آئندہ نسلوں کو تباہ کر دے گی۔ بس ایسے جذباتی گھن چکر میں عوام کو پھنسا کر اُن کا استحصال جاری ہے اور جاری رہے گا۔
اب گورکھ دھندے کے بعد عوام نے سوچا ہے کہ یہ مخصوص طبقہ جو پیدائشی طور پر اپنے آپ کو حکمران سمجھتا ہے، جو 22کروڑ عوام کا استحصال کر رہا ہے، اسے اُس سے نجات دلائی جائے، مخصوص طبقے کو اب مختلف ڈھونگ نہ رچانے پڑیں۔ نام نہاد جمہوریت کو بچانے کا یہی صحیح طریقہ ہے کہ آئین میں عوام کو حاصل بنیادی حقوق سلب کر لئے جائیں۔ اظہارِ رائے کی آزادی نام کی اصطلاحات ڈکشنری سے نکال دی جائیں۔ ملک کے اندر کسی سرکاری ملازم کو چھٹی لینے سے لے کر تنخواہ لینے تک اور ریٹائرمنٹ سے پنشن لینے تک حتیٰ کہ ہر جائز کام کروانے کے لئے بھی رشوت دینا پڑتی ہے اس لئے قانونی طور پر رشوت کو جائز قرار دے کر سروس فیس کا نام دے دیا جائے، الیکشن سسٹم ختم کر کے حکمرانی کے لئے مخصوص خاندان اور افراد نامزد کر دیئے جائیں، ان کے لئے کرپشن کو قانونی تحفظ دے کر حدود مقرر کر دی جائیں اور عام لوگوں کی سماجی حیثیت کے مطابق قانونی پابندی لگا دی جائے کہ وہ حکمرانی ٹیکس دیں تاکہ حکمرانوں کو اپنے اللے تللوں کے لئے پیسہ میسر آ سکے۔
اس طرح ہر چند ماہ کے بعد کسی کو ہٹانے اور کسی نئے کو لانے کے لئے جو منصوبہ بندیاں کرنا پڑتی ہیں اور کبھی کسی ادارے کو استعمال کرنا پڑتا ہے، وہ سب کام آسان ہو جائیں گے، اس طرح سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی بچ جائے گی۔ پھر ملک کے اندر ایسی ’’شے‘‘ بچے گی جسے جمہوریت کا نام دے دیا جائے گا اور عوام کو اس پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ عوام کو مزید بیوقوف بنانے کی ضرورت بھی نہ ہو گی۔ اب اس سے زیادہ عوام اور کیا کہہ سکتے ہیں۔