لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کا نام غیرمشروط طور پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل ) سے نکالنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی درخواست پر دوران سماعت وفاقی حکومت کا موقف مسترد کردیا اور نواز شریف کو 4 ہفتوں کےلیے علاج کےلیے بیرون ملک جانے کی غیر مشروط اجازت دے دی۔
عدالتی کارروائی کے تیسرے وقفے کے بعد کارروائی شروع ہوئی تو شہباز شریف اور وفاق کے وکلاء کمرہ عدالت پہنچے۔
عدالتی عملے نے عدالت کا تجویز کردہ ڈرافٹ وفاق اور شہباز شریف کے وکلاء کو دے دیا ،فریقین نے جس کا بغور جائزہ لیا ، شہباز شریف کے وکلاء نے عدالتی ڈرافٹ تسلیم کرلیا جبکہ وفاق نے حکام سے مشاورت کے بعد اس پر اعتراض کیا ۔
عدالت کے تجویز کردہ ڈرافٹ کے متن کے مطابق عدالت نے نئے بیان حلفی میں نواز شریف کو بیرون ملک علاج کے لیے 4 ہفتوں کا وقت دیا ہے۔
ڈرافٹ کے مطابق نواز شریف کی صحت بہتر نہیں ہوتی تو اس مدت میں توسیع ہوسکتی ہے، حکومتی نمائندہ سفارتخانے کے ذریعے نواز شریف سے رابطہ کرسکے گا۔
اس سے قبل شہباز شریف اور سرکاری وکیل کی جانب سے جمع کرائے گئے ڈرافٹ پر فریقین کے اعتراض کے بعد عدالت نے اپنا ڈرافٹ تیار کرنے کا کہا تھا۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ہماری جانب سے تیار ہونے پر ڈرافٹ پر فریقین متفق ہوئے تو فیصلہ کیا جائے گا، اس ریمارکس کے بعد کیس کی سماعت میں تیسری بار وقفہ دیدیا گیا ہے۔
سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے ان کے بھائی شہباز شریف نے بیان حلفی کا تحریری ڈرا فٹ عدالت میں جمع کروایا جبکہ سرکاری وکیل کی جانب سے بھی عدالت میں ڈرافٹ دیا گیا جسے شہباز شریف کے وکیل نے مسترد کر دیا ہے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نواز شریف کا بیان حلفی مناسب لگ رہا ہے، شہباز شریف کی جانب سے جمع کرائے گئے بیان حلفی سے سہولت کاری (facilitate) کا لفظ ہٹایا جائے اور اس کی جگہ ’یقینی بنانے‘ کے الفاظ کا استعمال کیا جائے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ شریف برادران کے ڈرافٹ میں قانونی پیچیدگیاں ہیں، وزارت قانون نے شریف برادران کے ڈرافٹ کا جائزہ لیا ہے، اس موقع پر وزارت قانون کی جانب سے بھی ایک ڈرافٹ عدالت میں پیش کیا گیا۔
سرکاری وکیل کے ڈرافٹ میں کہا گیا کہ نواز شریف طبی بنیادوں پر بیرون ملک جائیں گے، جب بھی نواز شریف کو ڈاکٹر فٹ قراردیں گے تو وہ واپس آئیں گے، وفاقی حکومت جب چاہے گی نواز شریف کو واپس آنا ہوگا، شہباز شریف بیان حلفی دیں کہ نواز شریف واپس نہیں آتے تو جرمانے کی رقم ادا کریں گے۔
سرکاری وکیل نے اشتر اوصاف کے پیش کردہ ڈرافٹ پر اعتراض کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 8 ہفتوں کی ضمانت دی ہے، بیان حلفی میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا، بیان حلفی اسلام آباد ہائیکورٹ کے ضمانت کے حکم کی خلاف ورزی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں 25 نومبر کو اپیل سماعت کیلئے مقرر ہے، وہاں ان کی موجودگی ضروری ہے، ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے مشروط طور پر اجازت دی جائے تو کوئی اعتراض نہیں۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم توقع نہیں کرتے ہیں کہ نواز شریف بیان حلفی دے کر جائیں اور واپس نہ آئیں۔
عدالت نے دوران سماعت 7 سوالات کیے ،جو یہ تھے۔
کیا ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے شرائط لگائی جا سکتی ہیں؟
کیا لگائی گئی شرائط علیحدہ کی جا سکتی ہیں؟
کیا میمورنڈم انسانی بنیادوں پر جاری کیا گیا؟
ضمانت کے بعد شرائط لاگو ہوں تو کیا عدالتی فیصلے کو تقویت ملے گی؟
کیا درخواست گزار ادائیگی کے لیے کوئی اور طریقہ ڈھونڈنے کو تیار ہے؟
حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہتی ہے یا نہیں؟
کیا فریقین نواز شریف کی واپسی سے متعلق یا کوئی رعایت کی بات کر سکتے ہیں؟ کیا فریقین اپنے انڈیمنٹی بانڈز میں کمی کر سکتے ہیں؟