شہباز شریف اور سرکاری وکیل کی جانب سے جمع کرائے گئے ڈرافٹ پر فریقین کے اعتراض کے بعد عدالت نے اپنا ڈرافٹ تیار کرنے کا کہہ دیا ہے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ہماری جانب سے تیار ہونے پر ڈرافٹ پر فریقین متفق ہوئے تو فیصلہ کیا جائے گا۔
اس ریمارکس کے بعد کیس کی سماعت میں تیسری بار وقفہ دیدیا گیا ہے۔
سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے ان کے بھائی شہباز شریف نے بیان حلفی کا تحریری ڈرا فٹ عدالت میں جمع کروا دیا جبکہ سرکاری وکیل کی جانب سے بھی عدالت میں ڈرافٹ دیا گیا جسے شہباز شریف کے وکیل نے مسترد کر دیا ہے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نواز شریف کا بیان حلفی مناسب لگ رہا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ شہباز شریف کی جانب سے جمع کرائے گئے بیان حلفی سے سہولت کاری (facilitate) کا لفظ ہٹایا جائے اور اس کی جگہ ’یقینی بنانے‘ کے الفاظ کا استعمال کیا جائے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ شریف برادران کے ڈرافٹ میں قانونی پیچیدگیاں ہیں، وزارت قانون نے شریف برادران کے ڈرافٹ کا جائزہ لیا ہے ، اس موقع پر وزارت قانون کی جانب سے بھی ایک ڈرافٹ عدالت میں پیش کیا گیا۔
سرکاری وکیل کے ڈرافٹ میں کہا گیا کہ نواز شریف طبی بنیادوں پر بیرون ملک جائیں گے،جب بھی نواز شریف کو ڈاکٹر فٹ قراردیں گے نواز شریف واپس آئیں گے،وفاقی حکومت جب چاہے گی نواز شریف کو واپس آنا ہوگا، شہباز شریف بیان حلفی دیں کہ نواز شریف واپس نہیں آتے تو جرمانے کی رقم ادا کریں گے۔
نواز شریف کے ڈرافٹ پر سرکاری وکیل کے اعتراضات
سرکاری وکیل نے اشتر اوصاف کے پیش کردہ ڈرافٹ پر اعتراض کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 8 ہفتوں کی ضمانت دی ہے بیان حلفی میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا، بیان حلفی اسلام آباد ہائیکورٹ کے ضمانت کے حکم کی خلاف ورزی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں 25 نومبر کو اپیل سماعت کیلئے مقرر ہے، وہاں ان کی موجودگی ضروری ہے،ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے مشروط طور پر اجازت دی جائے تو کوئی اعتراض نہیں۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم توقع نہیں کرتے ہیں کہ نواز شریف بیان حلفی دے کر جائیں اور واپس نہ آئیں۔
سرکاری وکیل کا پیش کردہ ڈرافٹ
سرکاری وکیل کے ڈرافٹ میں کہا گیا کہ نواز شریف طبی بنیادوں پر بیرون ملک جائیں گے،جب بھی نواز شریف کو ڈاکٹر فٹ قراردیں گے نواز شریف واپس آئیں گے،وفاقی حکومت جب چاہے گی نواز شریف کو واپس آنا ہوگا، شہباز شریف بیان حلفی دیں کہ نواز شریف واپس نہیں آتے تو جرمانے کی رقم ادا کریں گے۔
نواز شریف کے وکیل نے سرکاری وکیل کا ڈرافٹ غیر قانونی قرار دیدیا
سرکاری وکیل کے ڈرافٹ پر نواز شریف کے وکیل اشتر اوصاف نے کہا کہ یہ ڈرافٹ غیر قانونی ہے۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر نواز شریف زیر علاج ہوئے اور وفاق نے طلب کر لیا تو پھر کیا ہوگا؟
سرکاری وکیل نے عدالت میں بتایا کہ اسحاق ڈار کو آج تک ڈاکٹر ز کی جانب سے بیمار قراردیا جاتا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کل اگرنواز شریف ہائیڈ پارک میں برگر کھانے جاتے ہیں تو آپ یہاں درخواست دائر کردیں گے کہ وہ صحت مند ہیں، اس ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
نواز شریف کے وکیل اشتر اوصاف علی نے کہا کہ بیان حلفی کی خلاف ورزی ہوئی تو توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔
لاہور ہائی کورٹ میں شہباز شریف کی جانب سے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت سے متعلق دائر درخواست کی سماعت جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کر رہا ہے جس میں جسٹس سردار احمد نعیم بھی شامل ہیں۔
کیس کے سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر نون لیگ کو انڈیمنٹی بانڈ ہائیکورٹ میں جمع کروانے کی پیشکش کی گئی۔
اس موقف پر عدالت نے شہباز شریف سے استفسار کیا کہ کیا نوازشریف واپس آئیں گے، جس پر شہباز شریف نے کہا کہ انشاءاللہ واپس لائیں۔
عدالت نے درخواست گزار شہباز شریف سے مزید استفسار کیا کہ آپ کا انہیں ملک واپس لانے میں کیا کردار ہوگا، جس پر انہوں نے کہا کہ میں ان کے ساتھ بیرون ملک جارہا ہوں وہ علاج کے بعد واپس آئیں گے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم نواز شریف اور شہباز شریف سے لکھ کر انڈرٹیکنگ لے لیتے ہیں وفاق اس انڈر ٹیکنگ کو دیکھ لے، یہ انڈر ٹیکنگ عدالت میں دی جائے گی اگر انڈرٹیکنگ پر پورا نہیں اترا جاتا تو توہین عدالت کا قانون موجود ہے۔
عدالتی ریمارکس پر نواز شریف کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ عدالت کو مطمئن کرنے کی بات ہے تو جو عدالت حکم دے گی ہمیں قبول ہوگا۔
اس کے بعد عدالت نے شہباز شریف کے وکلاء سےتحریری ضمانت طلب کرلی جس کے بعد شہباز شریف اور نواز شریف کی طرف سے بیان حلفی کا تیار کرکے ڈرافٹ عدالت کو دے دیا گیا۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دو صفحات پر مبنی بیان حلفی کا ڈرا فٹ عدالت میں جمع کروا دیا، یہ ڈرافٹ عدالت کے ایسوسی ایٹ کے حوالے کر دیا گیا ہے اور یہ ڈرافٹ ججز کے چیمبر میں بھجوا دیا گیا ہے۔
عدالت میں جمع کرایا گیا تحریری ڈرافٹ
مسلم لیگ نون کی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے تحریری ڈرافٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’’نواز شریف صحت مند ہوتے ہی وطن واپس آئیں گے، نواز شریف واپس آکر اپنے عدالتی کیسز کا سامنا کریں گے، بیرون ملک ڈاکٹرجیسے ہی اجازت دیں گے نواز شریف فوری واپس آئیں گے،نواز شریف پاکستان کےڈاکٹروں کی سفارش پر بیرون ملک جارہےہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھیے:نواز شریف کا نام ECL سے نہ نکالنا غیر آئینی ہے
اس سے قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے پر حکومتی شرائط کے خلاف شہباز شریف کی درخواست کی سماعت کے دوران دو مرتبہ وقفہ لیا گیا۔
سماعت شروع کرنے سے قبل بینچ کے سربراہ جسٹس علی باقر نجفی نے فریقین سے استفسار کیا کہ عدالت پہلے 7 سوالات کا جواب جاننا چاہتی ہے۔
قوم نوازشریف کے حق میں دعا کرے ، شہباز شریف
سماعت میں وقفے کے دوران شہباز شریف نے جیو نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ’قوم نوازشریف کے حق میں دعا کرے، اللہ خیر کا فیصلہ لے کر آئے تاکہ نوازشریف بیرون ملک جاکر علاج کراسکیں‘۔
عدالت کے 7 سوالات
کیا ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے شرائط لگائی جا سکتی ہیں؟
کیا لگائی گئی شرائط علیحدہ کی جا سکتی ہیں؟
کیا میمورنڈم انسانی بنیادوں پر جاری کیا گیا؟
ضمانت کے بعد شرائط لاگو ہوں تو کیا عدالتی فیصلے کو تقویت ملے گی ؟
کیا درخواست گزار ادائیگی کے لیے کوئی اور طریقہ ڈھونڈنے کو تیار ہے ؟
حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہتی ہے یا نہیں ؟
کیا فریقین نواز شریف کی واپسی سے متعلق یا کوئی رعایت کی بات کر سکتے ہیں؟ کیا فریقین اپنے انڈیمنٹی بانڈز میں کمی کر سکتے ہیں؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا مؤقف
عدالت میں کیس کی سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ نواز شریف کی صحت تشویشناک ہے، چاہتے ہیں کہ وہ بیرون ملک علاج کے لیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ نون کو اگر وفاقی حکومت کو بانڈ جمع کرانے کا مسئلہ ہے تو اسی رقم کے برابر بانڈ عدالت میں جمع کروا دیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مؤقف پر شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ عدالت کے حکم کی تعمیل کے لیے تیار ہیں جس کے بعد عدالت نے اس معاملے پر صلاح مشورے کے لیے سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کردیا۔
اہم ترین کیس کی سماعت کے موقع پر درخواست گزار شہباز شریف اور دیگر لیگی رہنما لاہور ہائیکورٹ میں موجود ہیں اور سیکیورٹی کےبھی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
شہباز شریف کی جانب سے دائر درخواست میں وفاقی حکومت اور وزارت داخلہ سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ روز حکومت اور نیب کی طرف سے عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرنے کا موقف مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ کیس سننے اور فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
اس معاملے پر مسلم لیگ نون کے رہنما احسن اقبال کہتے ہیں کہ حکومت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے نواز شریف کو اذیت دے رہی ہے ، عمران خان کے رویے سے ان کی تربیت کا پتا چلتا ہے۔