افغانستان میں جب سامانی حکومت کمزور ہو گئی اور اس کےزیادہ تر صوبے اس کے ہاتھ سے نکل کر خود مختار ہوگئے تو انہی میں سے ایک صوبیدار ابو منصورسبکتگین نے 366ھ افغانستان کے دار الحکومت کابل کے جنوب میں واقع شہر غزنی میں اپنی خودمختار قائم کی جو تاریخ میں دولت غزنویہ اور آل سبکتگین کے نام سے جانی جاتی ہے۔کچھ عرصے میں ہی سبکتگین اتنا طاقت ور حکم راں بن گیا کہ اس نے اپنی سلطنت کی حدودمیں اضافہ کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔
سب سے اس نےپہلے خراسان پر حملہ کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا ۔ اسی سبکتگین کے زمانے میں مسلمان پہلی مرتبہ درہ خیبر کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے ۔اس نے غزنی سے نکل کر دیگر صوبوں پر فوج کشی کی اور وہاں قبضہ جمانے کے بعد اس کی نظریں سندھ کی جانب مرکوز ہوگئیں۔ اُس دورمیں سندھ کا خطہ طویل و عریض علاقے میں پھیلا ہوا تھا اور اس کی حدود شمالی سمت میں لاہور کی سرحد سے ملتی تھیں۔جب کہ ملتان اور اوچ اسی کاحصہ سمجھے جاتے تھے۔
سبکتگین کے لئے یہ بہت آسان تھا کہ وہ غزنی سے نکل کر کابل اور وہاں سے سیدھے سندھ کی حدود میں داخل ہوجائے، چونکہ اس نے ایران اور اس کے ملحقہ شہروں پر اپنی دھاک جمادی تھی اور اس کی ہیبت سے سندھ اور ہندوستان کے لوگ خائف تھے، ایسی صورت میں اس کو روکنے والا یا اس سے کے مد مقابل آنے والا کوئی حکمر ان نہیں تھا۔ایک روز سبکتگین کے مخبروں نے اسے اطلاع دی کہ ملتان کا حاکم حمید، ہندو راجائوں کو فوجی مدد بہم پہنچارہا ہے اور وہ غزنوی حکم رانوں کے خلاف محاذ آرا ئی کی کوششوں میں مصروف ہے۔
سبکتگین کو ہندوستان میں داخل ہونے کا موقع مل گیااور اس نے اس اطلاع کے بعد فوراً ہی ملتان پر حملے کی تیاریاں شروع کردیں اور ایک لشکر جرار کے ساتھ ملتان پر یورش کردی ۔ وہ اپنے گھوڑے دوڑاتا ہوا اس کی سرحدوں پر پہنچ گیا۔ ملتان کے حاکم حمید کو اپنی فوجی قوت کااندازہ تھا وہ جانتا تھا کہ غزنی فوج کا مقابلہ کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہےلہذا اس نے جنگ و جد ل سے بچنے کے لیے سبکتگین کو مصالحت کا پیغام بھیجا۔
سبکتگین نے اس کا قصور اس شرط اور وعدہ پر معاف کردیا کہ وہ اس کو ہر سال پابندی کے ساتھ خراج اد کرتے رہے گا۔ اس دوران سبکتگین کا انتقال ہوگیا اور اس کی جگہ اس کےبیٹے سلطان محمود غزنوی نے حکومت سنبھالی۔محمود غزنوی ایک جرات مند، بہادر، الوالعزم اور دوراندیش حکمران تھا۔ اس کی تائید میں کئی مورخوں کے بیانات نقل کئے جاسکتے ہیں۔ اس کے درباری شاعروں کے قصیدوں سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس نے جس وقت کا عنان حکومت سنبھالی ،سندھ سے ملحقہ علاقوں کے راجائوں نے اس کو ناتجربہ کار حکم راں تصور خیال کرتے ہوئے اپنی باغیانہ سرگرمیاں تیز کردیں اوران کے د ل میں سلطان محمود غزنوی سے پنجہ لڑانے کی خواہش پیدا ہوئی۔
ہندو ریاست بھاٹیہ کے راجہ جس کا تاریخی نام بجے رائے تھا، نے پہلا پتھر چلایا۔ وہ سمجھتا تھا کہ محمود غزنوی شیشے کے محل میں متمکن ہےاور وہ غزنوی سلطان کو نیست و نابود کردے گا لیکن یہ اس کی بھول تھی۔ محمود غزنوی کو جب بجے رائے کے عزائم کی اطلاع ملی تو اس نے اپنی قوت کو مجتمع کرکے بھاٹیہ کا رخ کیا ۔
محمود غزنوی کی پہلی منزل ملتان تھی، ملتان کے حاکم سے اس کو کوئی شکایت نہیں تھی اس نے محمود غزنوی کی راہ میں مزاحم ہونے کے بجائے اس کا نہ صرف پرتپاک طریقہ سے خیرمقدم کیا بلکہ اس کو اپنے علاقے سے گزرنے کی بھی اجازت دے دی کیونکہ وہ اس سے کسی قسم کا تنازعہ مول لینا نہیں چاہتا تھا، محمود غزنوی نے بھاٹیہ کو فتح کرلیا پھر غزنی کی راہ لی۔ملتان کا حاکم شیخ ابو الفتح دائود بن نصر تھا، اس نے محمود غزنوی کی اپنے دارالسلطنت کی طرف واپسی کے بعد اس سے بے اعتنائی برتنا شروع کردیں جس کی وجہ سے محمود غزنوی اس کی طرف سے شکوک و شبہات کا شکار ہوگیا۔
محمود غزنوی نے اس کے ارادوں کو بھانپ کراسے سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اس نے ملتان پر چڑھائی کی تیاری شروع کردیا ور اپنی فوج کو درہ خیبر عبور کرکے ملتان پرحملے کا حکم دیا۔افغانی فوج جب لاہور کی سرحد پر پہنچی تو وہاں کے راجہ انند پال کی سپاہ نے ان کا راستہ روک لیا اورراجہ انند آمادہ جنگ ہوگیا۔ یہ صورتحال محمود غزنوی کے لیے انتہائی پریشان کن تھی، اس نے افہام و تفیہم کا راستہ اختیار کیا لیکن جب معاملہ کسی طرح بھی درست نہیں ہوا تو محمود غزنوی کے سامنے صرف یہی راستہ باقی رہ گیا کہ وہ پہلے انندپال کی حکومت کا خاتمہ کرے۔
چنانچہ اس نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ پہلے لاہور پر حملہ کرکے انند پال کی حکومت کا خاتمہ کردیں۔سلطان کا حکم ملتے ہی افغان فوج نے لاہور پر حملہ کردیا۔دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا۔ ایسی خون ریز جنگ ہوئی کہ انندپال کے سپاہیوں کو اپنی شکست صاف نظر آنے لگی اور وہ میدان چھوڑ کر بدحواس ہوکر بھاگنے لگے ۔اس بھگدڑ کے دوران انندپال کی فوج کے بے شمار سپاہیوں کو روند ڈالا۔یہ صورت حال دیکھ کرراجہ انندپال نے میدان میں کھڑے رہنے کی بجائے راہ فرار اختیار کی۔
لاہور پر قبضہ کرنے کے بعد محمود غزنوی نے ازسرنو اپنی صفیں درست کیں اور ملتان پر حملہ آور ہوا۔ اس وقت شیخ ابو الفتح کی حالت بڑی ناگفتہ بہ تھی وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کو ایسی زبردست فوج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس نے اپنی جان کے خوف سے سراسیمگی کی حالت میں قلعہ بند ہوجانے کو ترجیح دی۔ محمود غزنوی نے قلعہ کا محاصرہ کرکے تمام رسد مسدود کردی۔
وہاں خوراک ختم ہوگئی تو کہرام برپا ہوگیا۔ خود شیخ ابوالفتح کو یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ اب کیا ہوگا۔ اس نے فرط ندامت سے تلوار اپنے گلے میں ڈالی اور ننگے سر محمود غزنوی کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی کا خواستگار ہوا اور پھر دریائے سندھ سے ملحق ایک بہت بڑا حصہ محمود غزنوی کے حوالے کردیا۔
ابھی اس واقعہ کو چند ماہ ہی گزرے تھے کہ لاہور کے شکست خوردہ حاکم انندپال نے پڑوسی ریاستوں کے راجائوں کو ملا کر اپنی طاقت بڑھانا شروع کردی۔ ساتھ ہی اس نے ملتان کے حاکم شیخ ابوالفتوح کو بھی اپنا ہمنوا بنالیا۔محمود غزنوی اس صورتحال پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ اس نے اپنی سپاہ کو کچھ دنوں آرام کرانے کے بعد ملتان پر پوری قوت کےساتھ فوج کشی کی اور تمام سرکش اور باغی گرفتار کرلئے ، شیخ الفتوح بھی گرفتار ہوگیا۔ جب ملتان پر اس کی عملداری قائم ہوگئی تو اس نے محمد بن قاسم کی تعمیرکردہ جامع مسجد کو ازسرنو آباد کیا جسے غیر آباد رکھا گیاتھا۔
میر معصوم شاہ بکھری نےاپنی تصنیف ’’ تاریخ سندھ ‘‘میں محمود غزنوی کی فتوحات سندھ کا ذکر کرتےہو ئے یہ تفصیل بیان کی ہے کہ محمود غزنوی نے ملتان کوفتح کرنے کے بعد اس کے دل میںسندھ کو اپنا باجگزار بنانے کی خو ا ہش اجاگر ہوئی۔ اس نے اپنے ایک سپہ سالار عبدالرزاق کوسندھ کا خطہ فتح کرنے کا حکم دیا۔
عبدالرزاق نے بکھر کے معاملات سے اطمینان حاصل کرنے کے بعد ٹھٹھہ اور سیہون کی جانب توجہ تو مبذول کی اور وہاں کے حکم ر انوں کو جو عرب تھے نکال باہر کیا لیکن اس کے بعد یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھی کہ جو لوگ اپنے اہل و عیال کےساتھ ٹھٹھہ اور سیہون میں آباد ہیں ان کو گزند نہ پہنچایا جائے۔ اس کے علاوہ ان تمام عربوں کو جن کی عالمانہ حیثیت میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں تھا، امور شریعت کے تعلق سے بڑے بڑے عہدے اور منصب دیئے اور ان کی تنخواہیں مقرر کیں۔ بعض کو جاگیروں اور زمینوں سے بھی سرفراز کیا۔ اسی اثناء میں اس نے گجرات پر چڑھائی کی۔
وہ اس مہم سے فارغ ہو کر رن کچھ کے راستے سے و اپس لوٹ رہا تھا کہ اسے پتہ چلا کہ منصورہ کے حاکم کی شہ پر گجرات اور کاٹھیاواڑ کے راجائوں نے شرپسندی اور سرکشی اختیارکر لی ہے اوراور وہاں فتنہ و فساد پیدا کردیا ہے۔ محمود غزنوی سبب کو نہیں وجہ سبب کو ختم کرنا چاہتا تھا اس نے منصورہ کے حاکم کی سرکوبی کو اولین امر خیال کرتےہوئے منصورہ پر حملہ کردیا۔
محمود غزنوی کے منصورہ پرحملہ کے واقعات ، عربی تاریخ نویسوں نے تفصیل سے لکھے ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ سلطان محمودغزنوی کے غیر متوقع حملہ سے منصورہ کے رہنے والوں پر قیامت گزر گئی وہ سراسیمہ ہو کر آبادیوںسے نکل پڑے۔ انہوںنے محمود غزنوی کے فاتحانہ شان و شوکت اور کروفر کے قصے سنے تھے لیکن اس کو کسی شہر پر یورش کرتے نہیں دیکھا تھا۔ جب منصورہ کے حاکم نے جس کا نام خفیف تھا ،یہ دیکھا کہ اس کے شہری اپنی بستیوں کو چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں تواس نے محل سے نکل کر جنگل کی راہ لی اور جھاڑیوں میں روپوش ہوگیا۔
لیکن محمود غزنوی کی فوج اس قدر چالاک اور مستعد تھی کہ اس نے اس کا پیچھا جاری رکھا اور اس وقت تک اپنے قدم نہیں روکے جب تک کہ اس کو برآمد نہیں کرلیا۔ اس صورتحال سے منصورہ کے رہنےو الوں پر خوف اور دہشت کی ایسی فضا پیدا کردی کہ بہت سے لوگ حرمت و ناموس کو بچانے کے لئے دریائے سندھ میں کود پڑے۔ بہت سے لوگوں نےغزنی فوج سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان قربان کردی۔
محمود غزنوی منصورہ کی فتح کے بعد غزنی واپس لوٹ گیا لیکن اس کے بعد دوبارہ یورش کی تو اس عزم کےساتھ کہ وہ سندھ کے جاٹوں کو ختم کرکے رہےگا، کیونکہ انہوں نے اس کی راہ میں مزاحم ہونے کی کوشش کی تھی اور ہندوراجائوں کو بغاوت پر آمادہ کیا تھا۔ چنانچہ اس نے دوبارہ سندھ پر فوج کشی کی اور ملتان سے کچھ دور پہنچ کر اس نے چار سو سے زائد جنگی کشتیوں کی تیاری کا حکم دیا۔ جب یہ تیار ہوگئیں تو اس نے اس میں اپنے سپاہی سوار کئے اور ان کو ہدایت کی کہ ان کے ذریعہ سندھ کے اندرونی علاقوں تک پھیل جائیں۔
مورخین نےان سپاہیوں کی تعداد اٹھائیس ہزار سے زائد بتائی ہے جن کو دریائی راستے سے سندھ بھیجا گیاتھا۔ جاٹوں کی بستیاں دریائے سندھ کے کنارے پھیلی ہوئی تھیں۔ جب غزنوی سپاہی مختلف مقامات پر کشتیوں سے اتر کر دریائے سندھ کے کنارے کنارے ان کی آبادیوں کا سراغ لگانے کے لئے بڑھنے لگے تو جاٹوں کو اطلاع مل گئی۔ انہوںے اپنے اہلخانہ کو بڑی سرعت کے ساتھ محفوظ مقامات کی طرف منتقل کیا اور خود آٹھ ہزار کشتیوں میں بیٹھ کر محمود غزنوی کے مقابلے پر اتر آئے۔ چونکہ جاٹوں کو وہ جنگی تربیت نہیں ملی تھی جو غزنوی فوج کو حاصل تھی، وہ مقابلہ نہیں کرسکے۔
اگرچہ ان کی تعداد افغان فوجیوں سے کہیںز یادہ تھی لیکن افغان فوجیوں نے ان کی کشتیوں پر تیروں کی ایسی ہولناک بارش کی جاٹ باغی خوف و ہراس کا شکار ہوکرافغان فوج کے مدمقابل آنے سےقبل ہی مارے گئےجب کہ ان کی متعدد کشتیاں دریائے سندھ میں ڈوب گئیں۔ بعد میں محمود غزنوی نے جاٹوں کا صفایا ہی نہیں کیا بلکہ ان کے اہل و عیال کو گرفتار کرکے بھاری مال غنیمت وصول کیا۔ اس محمود غزنوی پہلا فرمانروا تھا جس کے زیر نگین افغانستان، ایران اور سندھ کا بڑا علاقہ شامل تھا، لیکن چونکہ اس نے سندھ پر قبضہ مستقل حکومت کرنے کے خیال سے نہیں کیا تھا، اس لئے اس کی مستقل حکومت قائم نہیں ہوسکی۔