• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کے ممتاز دانشور، بزرگ استاد، نامور صحافی اور صاحبِ طرز کالم نگار عرفان صدیقی دو روز پہلے کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزام سے بری کردیے گئے تاہم چار ماہ پہلے ایک رات جس قدر ڈرامائی طور پر ایک دہشت گرد کی طرح ان کے گھر سے ان کی گرفتاری عمل میں آئی تھی، اگلی صبح وہ جس طرح ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیے اور دو ہفتوں کیلئے جیل بھیجے گئے تھے لیکن پھر ملک بھر کے سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں کے فوری اور شدید احتجاج کے باعث ایک دن بعد ہی اتوار کی چھٹی کے باوجود عدالت کے بند دروازے کھول کر ان کی رہائی کے احکامات جاری کیے گئے تھے، اس نے اس سارے معاملے کو انتہائی مشتبہ اور تحقیق طلب بنا دیا ہے۔ یہ ایسا واقعہ تھا جسے چیف جسٹس سپریم کورٹ، وزیراعظم اور سیاسی جماعتوں کے قائدین سمیت قومی زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد نے قابلِ مذمت قرار دیا۔ عرفان صدیقی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے خصوصی مشیر کے منصب پر بھی فائز رہے ہیں اس لیے اس بےبنیاد کارروائی کا محرک عام طور پر سیاسی انتقام کے جذبے کو قرار دیا گیا۔ لہٰذا یہ اب خود وفاقی حکومت کی ضرورت ہے کہ وہ شکوک و شبہات کے ازالے کی خاطر اس ناخوشگوار واقعے کے اصل اسباب کے تعین کیلئے قابلِ اعتبار اقدامات عمل میں لائے اور ذمہ دار قرار پانے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی یقینی بنائے۔ ہمارے نظام انصاف کا یہ ایک بڑا نقص ہے کہ بےشمار ملزمان برسوں قید و بند کی صعوبتیں بھگتنے کے بعد اعلیٰ عدالتوں سے باعزت بری قرار پاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جرمِ بےگناہی کی جو سزا وہ اور ان کے متعلقین بھگتتے ہیں، اسے کس کھاتے میں شمار کیا جائے۔ عدالتی نظام میں اصلاحات کا جو عمل جاری ہے، اس کے تحت اس نقص کا ازالہ بھی ہونا چاہئے کیونکہ یہ عدل نہیں کھلا ظلم ہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین