• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر کوئی فیصلہ ہنگامی طور پر ایمرجنسی کے پیش نظر کرنا پڑ جائے اور مشاورت یا سوچ بچار کا موقع نہ ملے تو اس میں غلطی کا امکان موجود ہوتا ہے لیکن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا فیصلہ ہرگز ہنگامی نوعیت کا نہیں تھا۔

وزیراعظم عمران خان اپنے قریبی صحافی ارشاد بھٹی کو بتا چکے کہ انہوں نے مارچ میں ذہن بنا لیا تھا کہ وہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دیں گے۔

گویا ان کے پاس سوچنے اور عمل کرنے کے لئے نو ماہ کی طویل مہلت تھی۔ اسی طرح اگر کوئی فیصلہ تنہا ایک انسان کو کرنا ہو تو اس میں بھی غلطی کا امکان ہوتا ہے لیکن آرمی چیف کا معاملہ کوئی خفیہ اور تنہا کرنے والا فیصلہ نہ تھا۔

28نومبر، دیکھئے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع پرسلیم صافی کا تجزیہ


یہ فیصلہ ملک کے سب سے منظم اور حساس ادارے کے سربراہ سے متعلق تھا جس میں وزیراعظم آفس، ایوانِ صدر، کابینہ اور وزارتِ قانون کا کردار تھا اور ان سب فورمز پر غور و خوض ضروری تھا۔ اب اس تناظر کو ذہن میں رکھیے اور پھر آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق واقعات کو دیکھ لیجئے تو انسان ششدر رہ جاتا ہے کہ یہ کیا اور کیوں ہوا۔

سب جانتے تھے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 29نومبر 2019کو ریٹائر ہو رہے تھے اور یہ بات واضح تھی کہ 28نومبر کو بھی عمران خان وزیراعظم اور عارف علوی صدر ہوں گے لیکن پُراسرار طور پر 19اگست کو وزیراعظم ہائوس سے وزیراعظم کے لیٹر پیڈ پر ان کے دستخط کے ساتھ بیان جاری ہوا کہ علاقائی سیکورٹی صورتحال کے پیش نظر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ان کی مدتِ ملازمت مکمل ہونے پر مزید تین سال کی توسیع دی جائے گی۔

اب پہلی بات یہ ہے کہ آرمی چیف کی تقرری وزیراعظم کے لیٹر پیڈ پر ہوتی ہے اور نہ اس پر وزیراعظم کے دستخط ہوتے ہیں۔

وزیراعظم کے اپنے دستخط کی روایت موجود ہے اور نہ اس کی کوئی قانونی حیثیت تھی بلکہ یہ اعلان وزیراعظم سے کرایا ہی نہیں جاتا۔ طریق کار کے مطابق کابینہ اور وزیراعظم ہائوس کی منظوری کے بعد معاملہ ایوانِ صدر جاتا ہے اور ان کے دستخط کے بعد ایوانِ صدر سے نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے۔

چنانچہ غلط طریق کار اور وزیراعظم کے لیٹر پیڈ پر بیان جاری کرنے سے اس معاملے کو متنازع بناکر اس پر بحث کا موقع فراہم کیا گیا لیکن اپوزیشن نے اس کو ایشو بنایا اور نہ میڈیا نے اس کو تنازع کا رنگ دیا۔

اپوزیشن اور میڈیا کو یہ بھی موقع فراہم کیا گیا کہ وہ یہ سوال اٹھائیں کہ تین ماہ قبل یہ فیصلہ کیوں کیا جا رہا ہے اور کس کو پتا کہ 29نومبر کو علاقائی سیکورٹی صورتحال کیسی ہوگی لیکن اپوزیشن اور میڈیا نے یہ سوال بھی نہیں اٹھایا۔

دوسری طرف حکومت کی طرف سے کوئی تسلی بخش توضیح پیش نہیں کی گئی کہ یہ قدم وسط اگست میں کیوں اٹھایا جا رہا ہے۔

بہرحال اپوزیشن اور میڈیا نے اس فیصلے کو خاموشی کے ساتھ بخوشی قبول کیا لیکن پھر حکومت ہی کی طرف سے یہ معاملہ یوں معمہ بنا دیا گیا جب پورے ایک ماہ کے بعد صدر عارف علوی نے 12ستمبر کو عاصمہ شیرازی کے ساتھ انٹرویو میں ارشاد فرمایا کہ آرمی چیف کی توسیع کا معاملہ ابھی تک ان کے دفتر میں آیا ہے اور نہ اس پر انہوں نے دستخط کئے ہیں۔

چنانچہ یہ سوال پھر ذہنوں میں اٹھنے لگا کہ حکومت نے پہلا اعلان 19اگست کو کیوں کیا اور ابھی (12 ستمبر) تک پراسیس مکمل کیوں نہیں کیا گیا تاہم قوم کے وسیع تر مفاد میں اپوزیشن بھی خاموش رہی اور میڈیا بھی اعراض کی پالیسی پر عمل پیرا رہا۔

دو ماہ تک اس ایشو سے متعلق یہ سسپنس رکھا گیا اور پھر پورے ایک ماہ کی تاخیر کے بعد 13نومبر کو صدر عارف علوی نے مہر بخاری کے ساتھ انٹرویو میں بیان بدل دیا اور کہنے لگے کہ میں نے اس انٹرویو (12ستمبر) سے پہلے آرمی چیف کی سمری پر دستخط کئے تھے لیکن انٹرویو کے دوران بھول گیا تھا تاہم متعین تاریخ پھر بھی نہیں بتائی۔

قصہ یہاں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ جب نومبر کے آخری ہفتے میں چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل ندیم رضا کی تقرری کا بیان وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہوا (حالانکہ وہ بھی ایوانِ صدر سے جاری ہونا چاہئے تھا) تو اس میں کہا گیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بطور آرمی چیف تین سال کے لئے توسیع کا نوٹیفکیشن 19اگست کو جاری ہوا تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ جب 19اگست کو جاری ہوا تھا تو افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر کے انٹرویوز میں متضاد دعوئوں اور مختلف افواہوں کے باوجود ان تین ماہ کے دوران حکومت نے کسی موقع پر یہ وضاحت کیوں نہیں کی کہ باقاعدہ نوٹیفکیشن فلاں تاریخ کو جاری ہوا ہے۔

نہ صرف یہ نہیں ہوا بلکہ پھر جب ایک پُراسرار شخص نے پُراسرار طور پر آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو اٹارنی جنرل نے اگلے دن اپنی حکومت کے بلنڈرز پر مشتمل دستاویزات خود بخود سپریم کورٹ میں پیش کر دیں حالانکہ ابھی تک ان کا باقاعدہ نوٹس نہیں ہوا تھا۔

اصل پنڈورا باکس آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کی توسیع سے متعلق تضادات سے بھرپور دستاویزات کے عدالت میں پیش ہونے سے کھل گیا۔

سوال یہ ہے کہ ان تین ماہ کے دوران حکومت کے عالی دماغوں جن میں فروغ نسیم کے علاوہ علی ظفر اور خاص طور پر بابر اعوان جیسے قانونی اور سیاسی گرو بھی شامل ہیں، اس معاملے کو باقاعدہ قانونی شکل کیوں نہ دی؟ قانون میں اگر خلا موجود بھی تھا تو پہلے روز سپریم کورٹ میں حکومتی سبکی کے بعد جب ایک روز میں کابینہ کے دو اجلاس بھی ہوئے تو اگلے روز پھر ان بلنڈرز کا ارتکاب کیوں کیا گیا کہ کابینہ اور وزیراعظم نے ایک لفظ کی منظوری دی، صدر نے دوسرے کی اور سمری میں کوئی اور لفظ لکھا گیا تھا۔

اب یہ تو وقت ثابت کرے گا کہ کس نے کیا کیا اور کیوں کیا لیکن تین چار روز جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے نہ صرف اداروں کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا گیا بلکہ پوری دنیا میں پاکستان اور پاکستان کے باوقار اداروں کی سبکی ہوتی رہی۔

جو کچھ ہوا بہت بُرا ہوا اور کسی صورت نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن اب بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ کیوں ہوا اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ابھی تک تو دو تھیوریز مارکیٹ میں گردش کر رہی ہیں۔

ایک سازش کی اور دوسری نالائقی کی۔ سازشی تھیوری کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ آخر جس حکومت کے پاس ایک معاملے کو حل کرنے کے لئے تین ماہ کی مہلت تھی اور جس کے پاس اتنے اعلیٰ قانونی دماغ تھے اور معاملہ تین بڑے گھروں تک محدود تھا، تو اس میں اتنے بڑے بلنڈرز اور وہ بھی مسلسل کیسے ہوتے رہے؟

اگر جان بوجھ کر نہیں ہوا اور واقعی غلطی ہوئی تو پھر پرنسپل سیکرٹری اور وزیر قانون جیسے متعلقہ لوگوں کو کوئی سزا کیوں نہیں دی جا رہی؟ اب اگر یہ سب کچھ جان بوجھ کر ایک سازش کے تحت کیا گیا تو یقیناً اس کے بڑے دور رس اور حکومت کے لئے خطرناک نتائج مرتب ہوں گے۔

دوسری صورت میں اگر یہ نالائقی ثابت ہوتی ہے تو بھی انتہائی بھیانک نتائج نکلیں گے کیونکہ اب ملک کے لئے فکرمند ہر فرد اور ادارہ یہ سوچے گا کہ جو لوگ ایک نوٹیفکیشن کو اس طرح ڈیل کر رہے ہیں، وہ نجانے اس ملک کے حساس مسائل اور معیشت یا خارجہ پالیسی جیسے گنجلگ ایشوز کو کس طرح ڈیل کر رہے ہوں گے۔

تازہ ترین