• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی اُردو میلہ۔”پاکستان میں فنون کی صورت حال“ پر گفتگو

ٹی وی ڈراموں کے ڈائریکٹرز اور فنکاروں کی کبھی بھی ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا تجربہ بڑھتا ہے، آج کا ڈرامہ اس لیے خوشحال ہے کہ پیسے زیادہ مل رہے ہیں مگر معیار کم ہے، ماضی میں جو لوگ ڈرامے سے وابستہ تھے وہ پڑھے لکھے اور ڈرامے کو سمجھنے والے تھے، اب ایسی کوئی قید نہیں، صرف پیسہ شرط ہے، آپ چاہیں کسی بھی کام سے وابستہ ہوں مگر آپ کے پاس خوشحالی ہے اور ضرورت سے زائد رقم ہے تو آپ با آسانی ٹی وی چینل کھول سکتے ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ ٹی وی ڈراموں پر سینسر شپ بھی نہیں ہے، جو چاہا لکھ دیا اور جسے چاہا اداکاری کرنے کا موقع دے دیا یہ سوچے بغیر کہ جو مکالمے وہ بول رہا ہے وہ فیملی کے ہمراہ سنے جا سکتے ہیں یا وہ جو اداکاری کر رہا ہے وہ اس کا اہل ہے۔

ان خیالات کا اظہار آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری 12ویں عالمی اردو کانفرس کے تیسرے دن ”پاکستان میں فنون کی صورت حال“ پر فلم، تھیٹر اور ٹی وی کے نامور فنکاروں سمیت معروف رائٹرز نے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

یہ بھی پڑھیے: نعیم بخاری کے ساتھ ایک شام

گفتگو میں نامور فنکاروں قوی خان، منور سعید، خالد انعم ، شیما کرمانی، حسینہ معین، ایوب خاور، کیف غزنوی اور شاہد رسام نے حصہ لیا جبکہ میزبانی کے فرائض نور الحسن نے انجام دیے۔

قوی خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے فلمیں بنانے میں بہت نقصان اٹھایا ہے، ایک بار خیال آیا کہ نقصان پورا کرنے کے لیے ”منجھی کتھے ڈانواں“ فلم بنائی جائے اور یہ فلم خوب چلی اور اسے پسند بھی کیا گیا مگر اس فلم کی کامیابی میں ڈسٹری بیوٹرز اتنے مگن ہوگئے کہ مجھے پیسے دینا ہی بھول گئے لیکن چونکہ میں نقصان اٹھانے کا عادی تھا اس لیے زیادہ محسوس نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیے: ’’دبستان اردو اور بلوچ شعرا‘‘ کے موضوع پر گفتگو

انہوں نے کہا کہ میں نے ٹیلی وژن کو آج تک نہیں چھوڑا، ٹیلی وژن آج تک میرے ساتھ چل رہا ہے ہمارے یہاں فلم بنانے میں بہت وقت لگتا ہے جبکہ مغرب میں جو فلمیں بنائی جا رہی ہیں وہ ایک سے ڈیڑھ ماہ میں مکمل ہو جاتی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ فلم سے وابستہ ہر شخص اپنے کام خود کرتا ہے اور وقت کو ضائع نہیں کرتا۔

منور سعید نے کہا کہ سارا مسئلہ اقتصادی ہے گھر کو چلانے کے لیے رقم کی ضرورت پڑتی ہی ہے، پچاس سال پہلے جب ہم نے کام شروع کیا تھا تو اس وقت اداکاری کو ہم اپنا کیریئر نہیں بنا سکتے تھے اس لیے اداکاری کے ساتھ ساتھ ملازمت بھی کیا کرتے تھے مگر اب چونکہ ٹیلی وژن 24 گھنٹے چل رہا ہے اور بے شمار چینلز ہیں لہٰذا اب اسے کیریئر بنایا جا سکتا ہے مگر یہ خیال رہے کہ صرف کیریئر بنانا ہی مقصد نہیں ہو نا چاہیے بلکہ فنون کی ترویج بھی ہو۔

یہ بھی پڑھیے: ”دور عصر حاضر میں نعتیہ اور رثائی ادب“ کا جائزہ

حسینہ معین نے کہا کہ آج کے ڈرامے اپنی تہذیب کو بھول چکے ہیں، کئی مکالمے تہذیب کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں۔

شیما کرمانی نے کہا کہ آج کے دور میں تھیٹر پر مزاح کا مزاج ہی بدل گیا ہے انسانوں کے رنگ و روپ اور ذات کو نشانہ بنا کر اس گفتگو کو مزاح کا نام دیا جاتا ہے جبکہ وہ کسی بھی طور مزاح نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ انسان کی تذلیل ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ذمہ داری ڈائریکٹرز کی بھی ہے کہ وہ ان پر نظر رکھیں کہ ان کے ڈرامے میں کسی کی بھی تذلیل کا پہلو نہ آنے پائے۔

یہ بھی پڑھیے: شہناز نور اور کشمیر احمد کیلئے اعتراف کمال ایوارڈز

ثمینہ احمد نے کہا کہ ہم مشکل پسند ہونے کے بجائے روز بہ روز آرام طلب ہو رہے ہیں، اصل مارکیٹنگ تو وہ ہے کہ جب کوئی چیز مارکیٹ میں نہ بِک رہی ہو اور آپ اسے فروخت کر کے دکھائیں، اسی طرح فنون سے وابستہ مارکیٹنگ کے افراد کا یہ کام ہے کہ وہ کلاسیکل کام کو آگے بڑھائیں اور عام عوام تک پہنچائیں۔

خالد انعم نے کہا کہ معاشرہ اعتدال پسند ہونا چاہیے اب اگر کوئی ریڈیو چلانے والا ٹی وی چینل چلائے گا تو وہ اپنی سوچ کے مطابق ہی چلائے گا۔ جب تک پروفیشنلز کو کام نہیں دیا جائے گا فنون کا معاملہ درست نہیں ہوگا، مسئلہ سارا اس وقت خراب ہوا جب تخلیقی کاموں پر مارکیٹنگ نے قبضہ کر لیا یہاں تک کے بعض ڈائریکٹرز کی طرف سے بچوں کے پروگرام میں ہوٹ گرل رکھنے کی فرمائش بھی کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: آرٹس کونسل میں بارہویں عالمی اردو کانفرنس کا میلہ سج گیا

ایوب خاور نے کہا کہ پہلے زمانے میں پروفیشنلز یہ طے کرتے تھے کہ ہم نے کیا دکھانا ہے اب سیٹھ طے کرتے ہیں کہ کیا دکھایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایکٹریس کی بھی ذمہ داری ہے کہ اگر اسے کردار غلط لگے تو وہ اسے کرنے سے منع کر دے۔

شاہد رسام نے کہا کہ کئی لوگ کہتے ہیں کہ کلاسیکل موسیقی کو وہ مقام نہیں مل سکا جو اس کا حق ہے مگر یہ کہنے والوں سے کوئی یہ تو سوال کرے کہ انہوں نے خود اس معاملے میں اپنا کیا کردار ادا کیا، بات صرف ذمہ داری نبھانے کی ہے، باتیں تو سبھی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فنون کے حوالے سے بہت ساری باتیں اس لیے عام لوگوں تک نہیں پہنچ سکیں کہ ہمارا معاشرہ گرد آلود ہے ہم دوسروں پر اپنا خیال مسلط کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ دوسرے کو کیا دیکھنا ہے یا کیا کرنا ہے اس کا فیصلہ اسے خود کرنے دیں، آرٹ آپ کی روح سے گرد کو صاف کرتا ہے۔

کیف غزنوی نے کہا کہ جس زمانے میں جو کام کیے گئے وہ اس زمانے کے لحاظ سے درست سمجھے گئے مگر اب چونکہ ٹیکنالوجی کی رفتار بہت تیز ہو چکی ہے لہٰذا کچھ سال یا کچھ ماہ پہلے کی ہوئی چیز آج مناسب نہیں لگ رہی، جنریشن گیپ اب بیس پچیس سال کا نہیں بلکہ صرف تین سال کا رہ گیا ہے۔

تازہ ترین