• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف میں اگر کوئی 2019ء کے مین آف دی ایئر کے خطاب کا مستحق ہے تو وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار اس کے پوری طرح مستحق ہیں۔ پارٹی میں کسی اور لیڈر کو کپتان وزیراعظم عمران خان کا اعتماد حاصل نہیں۔ ناقدین کے لئے وزیراعظم نان پلے انگ کپتان اور ڈی فیکٹو وزیر اعلی ہیں۔ دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر مراد سعید ہیں۔ عثمان بزدار کی دکھائی نہ دینے والی کامیابیوں کےپیچھے کیا راز ہے یہ اب بھی ایک اسرار ہے۔ جبکہ عمران خان کا کہنا ہے کہ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی دو وجوہ ہیں۔ اول ان کا غریب خاندانی پس منظر اور دوسرے ان کی ایمانداری۔ لیکن وہ کبھی اولین انتخاب نہیں رہے بلکہ پارٹی میں اندرونی اختلافات کے نتیجے میں ابھر کر سامنے آئے۔

عثمان بزدار تحریک انصاف کے مین آف دی ایئر ہونے کی کئی وجوہ ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کے پاس اس بات کا مشکل ہی سے جواب ہے کہ وزیراعلی پنجاب کو کیوں نہیں ہٹایا جاسکتا؟ وزیراعظم نے اپنے گزشتہ دورے میں ان پارٹی رہنمائوں اور وزارت اعلی کے خواہش مندوں کو ’’شٹ اپ‘‘ کال دے دی تھی۔

وزیراعلی نے کچھ کئے کرائے بغیر پورا سال گزاردیا جبکہ ان کی کامیابیوں کے دعوئوں پر مشتمل کتابچہ بھی شائع ہوا۔ انہوں نے تو 2018 ء کے عام انتخابات سے چند ماہ قبل ہی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔

انہوں نے وزارت اعلیٰ کے حصول میں شاہ محمود قریشی،، چوہدری محمد سرور، عبدالعلیم خان اور فواد چوہدری کو بھی پیچھے چھوڑا۔ ان کے ذاتی کھاتے میں کوئی بڑا کام کرجانے کا کریڈٹ نہیں ہے پھر بھی وزیراعظم ان کے کاموں کی تعریف کرتے ہیں اور اپنے انتخاب پر کوئی یو ٹرن لینے کے لئے آمادہ نہیں ہیں وزیراعظم کہتے ہیں کہ وہ ا ٓئندہ انتخابات تک موجود رہیں گے۔

سال 2020ء عثمان بزدار کے لئے نہیں بلکہ عمر ان خان کے لئے ایک چیلنج رہے گا۔ اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ نئے چیف سیکریٹری پنجاب کو زیادہ فعال کردار دیا جائے گا۔ تمام سیکریٹریز سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ وزیرا علی کو براہ راست سمریز نہ بھیجیں بلکہ وہ چیف سیکریٹری کے ذریعہ جانی چاہئیں۔ بیوروکریسی اور پولیس میں بڑے پیمانے ردوبدل بھی براہ راست ’’اوپر‘‘ کے احکامات کے ذریعہ ہوا۔

پہلی بار ایسا ہوا کہ وزیراعظم نے اس معاملے میں گجرات کے چوہدری برادران کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔ آئندہ بلدیاتی انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بیورو کریسی میں حالیہ تبدیلیاں تحریک انصاف کی حکومت کے لئے چیلنج ہوں گی اپنے حالیہ دورے کے بعد وزیراعظم تمام تر عملی مقاصد کے تحت خود اپنے پارٹی رہنمائوں کو بڑا واضح اور مضبوط پیغام دیا۔

ان میں سے کچھ ان کے خیال میں عثمان بزدار کے خلاف مہم کی پشت پر ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بزدار کو خود اپوزیشن کی جانب سے زیادہ تنقید کا سامنا نہیں ہے۔ وزیراعظم گزشتہ 15؍ ماہ کے دوران عثمان بزدار سے زیادہ کسی اور صوبے کے وزیراعلی سے نہیں ملے۔ وزیراعلی سندھ سے وہ سال بھر پہلے ملے۔ عمران خان نے ایک حالیہ اجلاس میں بزدار کو میڈیا کا سامنا کرنے میں جارحانہ اور تحکمانہ رویہ اختیار کرنے کے لئے کہا۔

اس مقصد کے لئے شعلہ بیان فیاض الحسن چوہان کو صوبائی وز یر اطلاعات کے طور پر واپس لے آئے ہیں۔ گزشتہ سال کے دوران عمر ان خان نے اس مقصد کے لئے شہباز گل، صمصام بخاری اور میاں اسلام کو آزمایا لیکن ان کا نرم اور پختہ لہجہ کام نہ آیا۔ اپنے گزشتہ دورہ پنجاب میں وزیراعظم نے جو پیغام دیا وہ تحریک انصاف کے متعلقین کے لئے بڑا صاف اور واضح ہے کہ وہ آئندہ انتخابات تک انتظار کریں، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ عثمان بزدار کو تحریک انصاف کے اندر مکمل اعتماد حاصل نہیں ہے۔ شاہ محمود، عبدالعلیم اور چوہدری سرور جو و زارت اعلی کے مضبوط امیدوار رہے۔

عمران خان نے انہیں عثمان بزدار کی حمایت کرنے کے لئے کہا ہے۔ وہیں یہ اتحادیوں سمیت چوہدری برادران کے لئے بھی پیغام ہے۔ عمران خان نے پارٹی رہنمائوں سے اپنے اختلافات ختم کرنے کے لئے زور دینے کے ساتھ یہ بھی واضح کردیا ہے کہ وہ کہیں نہیں جارہے۔ عثمان بزدار کے بارے میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ وزیراعظم کا انتخاب ہیں جو وزیراعلی پر تنقید برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

تحریک انصاف کے ایک وفاقی وزیر جو نام ظاہر کرنا نہیں چاہتے ان کے مطابق وزیراعطم نے بزدار کو بحال رکھ کر بڑا خطرہ مول لیا ہے۔ ایسے وقت جب 2020ء میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ جو عثمان بزدار ہی نہیں بلکہ پنجاب میں تحریک انصاف کے مستقبل کے لئے بھی فیصلہ کن ہوں گے۔ ایک اور عنصر جو حکمراں جماعت کو بڑھاوا دے سکتا ہے، وہ شریف برادران کا مستقبل ہے۔ شہباز شریف کے خلاف تحقیقات نے زور پکڑ لیا ہے۔

مذکورہ وزیر کے مطابق سب جانتے ہیں عمر ان خان مرد بحران ہیں۔ انہوں نے ہی بزدار کو ایک کامیاب کہانی بنایا۔ ماضی میں وزیراعظم نے اپنے قریبی معاون نعیم الحق کو بزدار کے مسائل سے نمٹنے کا فریضہ دیا تھا لیکن وہ بیمار ہیں۔ پھر یہ ذمہ داری فیاض الحسن چوہان کو دے دی گئی۔ اب وزیراعظم نے سوا سال میں بزدار کی کامیابیوں کی تشہیر پر کتابچہ لانے کی اجازت دے دی ہے۔ گزشتہ سوا سال کے دوران مختصر عرصہ میں کسی بھی صوبائی حکومت نے سیکریٹریز، آئی جی پیز اور دیگر اعلی سرکاری ملازمین کو تبدیل نہیں کیا۔

تحریک انصاف کے اندر اور باہر لوگ حیران ہیں کہ عمر ان خان بزدار کو برقرار رکھنے پر کیوں مصر ہیں۔ یہ ایک بڑا راز ہے۔ جس پر عثمان بزدار مین آف دی ایئر قرار دیئے جانے کے مستحق ہیں۔ تا ہم ، پی ٹی آئی کے ایک حامی صحافی نے وزیر اعلیٰ بزدار کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے بزدار کو بہت غور و غوض کے بعد چنا ہے اور بزدار ایک نرم انسان ہیں اور جب وہ کام کرتے ہیں تو اپنے آپ کو کم شہرت دیتے ہیں،عمران خان عثمان بزدار کو اس لئے پسند کرتےہیں کہ بزدار وفادار، ایماندار اور ثابت قدم انسان ہیں۔ 

تازہ ترین