ملکی اور عالمی سطح پر ماحول کے ضمن میں 2019 میںکوئی اچھی خبریں نہیں تھیں۔البتہ ہم نے اس ضمن میں کچھ’’ نام کمایا‘‘اور دنیا کو ہمارے بارے میں کچھ نئی ’’معلومات‘‘ ملیں۔ہوا کچھ یوں کہ ہمارے دو شہر لاہور اور کراچی دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے اور دوسرمے نمبر پر آگئے۔اسی طرح کراچی کا کچرا اور لاہور کا اسموگ 2019میں ماحول سے متعلق پاکستان کی خبروں میں سر فہرست رہا۔
اسموگ ہمارا بالکل نیا مسئلہ نہیں ہے۔تاہم تین چار برس سے یہ شدت اختیار کرچکا ہے۔صوبہ پنجاب ،بالخصوص ،لاہور اس سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔جب بھی یہ مسئلہ شدت اختیار کرتا ہے طرح طرح کے سرکاری اعلانا ت سامنے آنے لگتے ہیں کہ اینٹوں کے بھٹّوں پر پابندی عاید کردی گئی اورفلاں فلاں اقدامات اٹھالیےگئے ہیں ۔لیکن تاحال کچھ خاص نہیں کیا گیا ہے،بالخصوص اینٹوں کے بھٹّوں کے ضمن میں۔خیال رہے کہ پرانے طرز کے اینٹوں کے بھٹّے نہایت آلودہ اور زہریلا دھواں خارج کرتے ہیں جو ماحول اور انسانی صحت کے لیے بے حد خطرناک ہوتاہے۔زگ زیگ ٹیکنالوجی کے باعث اس دھوئیں کے اخراج میںچالیس فی صد کمی ہوجاتی ہے ۔ دوسری جانب نومبر 2017میں اس وقت کے وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی مشاہد اللہ خان نےایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ لاہور سمیت پنجاب میں آلودہ دھند یا اسموگ کی وجہ کارخانوں سے نکلنے والا دھواں ہے اور اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ان کا فرمانا تھا کہ اگرچہ اب تیس فی صد گاڑیاں گیس پر منتقل ہوچکی ہیں،لیکن اس وقت پنجاب میں اسموگ کی ایک اور وجہ ان گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بھی ہے جو پیٹرول اور ڈیزل سے چل رہی ہیں اور یہی دھواں ماحول کو خراب کرنے کاباعث بنتا ہے۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 'پنجاب میں اسموگ کی بدتر ہوتی ہوئی صورت حال میں بعض ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ بھارت میں ان دنوں بڑے پیمانے پر فصلوں کو آگ لگائی جاتی ہے جس کے اثرات پاکستانی پنجاب پر پڑ رہے ہیں، لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جب تک ہم اپنے صعنتی علاقوں سے خارج ہونے والے اس زہریلے دھویں اور کیمیکل کی روک تھام نہیں کریں گے، یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔
مشاہداللہ خان کی باتیں حقیقت سے بہت قریب تھیں،لیکن آج تک گردن صرف غریب بھٹّے والے ہی کی مروڑی جارہی ہے۔ ان کی اپنی حکومت کے دور میں بھی ایسی ہی شکایات تھیں اسی لیے نومبر 2017میں اسموگ کے خلاف نامناسب اقدامات پر لاہور ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت سے جواب طلب کرلیا تھا۔عدالت نے پنجاب بھر میں اسموگ کے مسئلے، ماحولیاتی تبدیلی اور اسموگ کے خلاف نا مناسب اقدامات کرنے پر صوبائی حکومت پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلیوں کےخلاف فوری اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی تھی۔دل چسپ بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سےاس بارے میں درخواست دائر کی گئی تھی ۔درخواست گزار، ولید اقبال نے ایک سال میں دوسری مرتبہ اسموگ کا مسئلہ سامنے آنے پر حکومت کو ذمّے دار قرار دیا تھا۔
چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے مقدمے کی سماعت کے دوران ادارہ تحفظ برائے ماحول کے افسر کو یاد دہانی کرائی تھی کہ متعلقہ شعبے اسموگ کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیےتھےکہ اسموگ کے بحران کی وجہ سے لوگوں کی زندگی مفلوج ہوگئی ہے، مگر حکومت اب تک سو رہی ہے۔آج بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے،لیکن نہ جانے اب ولید اقبال کہاں ہیں؟حالاں کہ بعض ماہرین کے مطابق ممکنہ اقتصادی ترقی کی رفتار کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں پندرہ برسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج405میٹرک ٹن کی سطح سے 1603میٹرک ٹن یا اس سے بھی زاید ہوسکتاہے ، لیکن ہمارے متعلقہ حکام تو موجودہ صورت حال ہی کو سنبھالنے میں ناکام نظر آتے ہیں،دیکھیے آگے کیا ہوتا ہے۔
صوبہ پنجاب کے بعد اب سند ھ میں بھی دھند کا مسئلہ بڑھنے لگا ہے۔چناں چہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں یوسف گوٹھ،کراچی میں آلودگی پھیلانے والے سو غیر قانونی بھٹّے بند کر ادیےگئے تھے۔یہ بھٹّے پرانے ٹائراورکپڑےبہ طورایندھن استعمال کررہے تھے،جس کی وجہ سے علاقہ مکین کئی بیماریوں کا شکار ہونے لگے تھے۔واضح رہے کہ سندھ کے قانون برائے تحفظ ماحول 2014 کی رو سے مقررہ حدود سے زاید ہر قسم کا فضائی اخراج قابلِ سزا جرم ہے جس کی روک تھام کے لیے سیپا کو مقررہ حد سے زاید فضائی آلودگی پھیلانے کی مرتکب کاروباری سرگرمیاں بند کرانے کا اختیار حاصل ہے۔
کراچی ویسے تو 2019 کے زیادہ تر عرصے میں گندگی اور کچرے کے حوالے سے اندرون اور بیرون ملک مشہور رہا ،لیکن دو جنوری کو اس شہر کے باسیوں کو ایک اچھی خبر سننے کو ملی تھی۔اس خبر میں کہا گیا تھا کہ فضائی آلودگی کم اور زمینی حِدّت محدود کرنے کے لیےکراچی میں بایو گیس سے چلنے والی بسیں متعارف کرائی جائیں گی ۔کراچی میں صفر اخراج یا ضرر رساں گیسوں کا اخراج صفر کرنے کا منصوبہ بین الاقوامی گرین کلائمیٹ فنڈ کے مالی تعاون سے شروع کیا جا رہا ہے۔ اس دوران گرین بس ریپڈ ٹرانسپورٹ (بی آر ٹی) کے تحت ایسی دو سو بسیں متعارف کرائی جائیں گی،جو بایو گیس سے چلتی ہیں۔ بسوں کا یہ نیا نظام 2020 ء تک اپنا کام شروع کر دے گا۔ان بسوں کا کرایہ کم ہو گا اور2.6ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی کم پیدا ہو گی۔ بی آر ٹی کی بسوں کا روٹ تیس کلومیٹر طویل ہو گا۔ اس سلسلے میں پچیس ایسے نئے بس اسٹاپس بھی تعمیر کیے جائیں گے، جن میں پیدل چلنے والوں کا خاص خیال رکھا جائے گا۔یادرہے کہ گرین کلائمیٹ فنڈ اقوام متحدہ کے تحفظ ماحول کے مذاکرات کے بعد قائم کیا گیا تھا۔ یہ ادارہ کراچی کو اس منصوبے کے لیے 49 ملین ڈالرز دے گا۔ اس منصوبے پر کل لاگت 583.5 ملین ڈالر آئے گی۔ اس میں مالی تعاون فراہم کرنے والوں میں ایشیائی ترقیاتی بینک اور سندھ حکومت بھی شامل ہیں۔اس چار سالہ منصوبے میں شامل دو سو بسیں چلانے کے لیے بایو میتھین گیس سے توانائی حاصل کی جائے گی جو کراچی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں موجود لاکھوں بھینسوں اور گایوں کے گوبر سے حاصل کی جائے گی۔ اس طرح روزانہ تین ہزار دو سو ٹن گوبر کو توانائی میں تبدیل کیا جائے گا۔عام طور پریہ گوبر سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔
فطری ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف نےپانچ مارچ کو سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی روکنےکےلیے اقوام متحدہ کے ایک کنونشن کا مطالبہ کیا۔یاد رہے کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے اقوام متحدہ کی رُکن ریاستوں سے مطالبہ کر رکھا ہے کہ 2030تک سمندروں میں پہنچنے والے پلاسٹک کا سلسلہ مکمل طور پر روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں اوریہ امر یقینی بنایا جائے کہ پلاسٹک کے انتہائی چھوٹے یا مائیکرو ذرات بھی سمندروں تک نہیں پہنچیں۔
رواں برس بھی یورپ میں شدید گرمی کی لہرآئی اور جون میں وہاں ریکارڈ درجہ حرارت سامنے آیا۔ فرانس، جرمنی، سوئزرلینڈ اور بیلجیم میں جون میں گرمی کے نئے ریکارڈبنے۔ فرانس میں بچوں کے امتحانات منسوخ کر دیے گئے۔اگست میں بھی یورپ میں گرمی کی لہرآئی، لہذا کئی ممالک میں ہیلتھ وارننگ جاری کرنی پڑی۔مجموعی طورپر یورپ کے چھبّیس شہروں میں ہیلتھ وارننگز جاری کی گئیں ۔چار اگست کو خبر آئی کہ گروشیا میں درجہ37ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا،براعظم یورپ کے بعض ممالک شدید گرمی کی زد میں ہیں اور درجہ حرارت 42ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا ہے۔اٹلی میں گرم موسم کی وجہ سے جنگلوں میں آگ لگنے کے واقعات پیش آئے اور درجنوں قصبوں میں انتظامیہ کو الرٹ پر رکھا گیا ۔جنوبی اسپین اور پرتگال میں درجۂ حرارت47ڈگری سینٹی گریڈتک پہنچنے کی توقع ظاہر کی گئی تھی۔جرمنی کے شہر ڈسلڈروف میں دریائے رائین کے کچھ حصے خشک ہو گئےتھے ۔جنوبی جرمنی میں دریائے ڈینیوب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔یورپ میں گرمی کی وجہ سے اموات بھی ہوئیں۔دس اگست کوعراق میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈتک پہنچنے پر وہاںعام تعطیل کا اعلان کردیا گیا تھا۔
حکومت نے پانچ جون سے پلاسٹک کے تھیلے اسلام آباد لانے پر پابندی کا اعلان کیا۔ اورچودہ اگست کے بعد اسلام آباد میں پلاسٹک کے تھیلےا سٹاک،سپلائی کرنے اور ان کی خرید و فروخت پرمکمل پابندی عاید کردی تھی۔صوبہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی ایسی ہی پابندی عاید کر دی گئی تھیں۔
اکتوبر کے مہینے میں جکارتہ میں دو روزہ بین الاقوامی ایکو اسلام کانفرنس کا انعقاد ہواجس کے اختتام پر تمام شرکا نے عہد کیا کہ وہ تحفظِ ماحول کے لیے بھرپور کوشش کریں گے ۔شرکاء نے اتفاق کیا کہ انسان کا مستقبل اسی صورت میں محفوظ ہو سکتا ہے، جب تمام انسان مل کرفطرت کاتحفظ یقینی بنانے کی کوشش کریں۔کانفرنس کا موٹو تھا: '’’انسانوں اور فطرت سے پیار کریں‘‘ ۔
سیٹیلائٹس سے حاصل کی گئیں تصاویرکا جائزہ لے کرماہرین نے تین اکتوبر کو یہ حتمی اعلان کیا کہ انٹارکٹیکا میں لاہورکے رقبے کے مساوی برفانی تودہ 'ایمری آئس شیلف نامی برفانی خطے سے علیحدہ ہو گیاہے۔ماہرین کا کہنا تھا کہ پچاس برسوں میں اس برفانی خِطّے سے علیحدہ ہونے والا یہ سب سے بڑا برفانی تودہ ہے جس کا رقبہ 1636 مربع کلومیٹر ہے اور اسے ڈی 28 کا نام دیا گیا ہے۔
عالمی ماحولیاتی ادارے آئی کیو ائیر کی فضائی معیار کی درجہ بندی کے مطابق اٹھائیس اکتوبر کی صبح لاہور کی فضاآلودگی کے اعتبارسے دنیا میں بدترین تھی،یعنی اس روز اے کیو آئی 389 تھی۔ اے کیو آئی فضا میں مختلف گیسوں اور پی ایم 2.5 (فضا میں موجود ذرات) کے تناسب کو جانچ کربنائی جاتی ہے۔ایک خاص حدسے تجاوز کرنے پر یہ گیسیں ہوا کو آلودہ کر دیتی ہیں۔پاکستان میں ماحول کےبارے میںآگاہی فراہم کرنے والی تنظیم کلائمیٹ ایکشن ناؤ نے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ لاہور میں اس وقت پی ایم 2.5 ،عام سطح سے دس گنا زیادہ ہے۔یہ سلسلہ چھ نومبر تک آگے بڑھتا رہالہذاپنجاب میں تعلیمی ادارے بند کرنے پڑے اور لوگوں کی نقل وحرکت محدود ہوگئی تھی۔سات تاریخ کوصورت حال میںکچھ بہتری آئی ۔لاہور میں امریکی سفارتخانےمیںنصب فضاکے معیار کی نگرانی کرنےوالے آلات سےحاصل شدہ اعداد وشمار کے مطابق سات نومبر کی صبح دس بجے لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 130 تھا،تاہم چھ نومبر کی شب گیارہ بجے یہ انڈیکس 580 تک پہنچ گیا تھا۔اے کیو آئی کے مطابق 130 کی شرح حساس طبعیت کے مالک افراد کے لیے غیرصحت مند ہوتی ہے اور 580 کی شرح تو ہر فرد کے لیے انتہائی خطرناک تصور کی جاتی ہے۔یہ دس دنوں کے دوران دوسرا موقع تھاکہ لاہور کی فضا کا معیار خطرناک حد تک خراب ہوا۔ اس سے قبل 29 اکتوبر کو بھی لاہور کی فضا آلودگی کے اعتبار سے دنیا میں بدترین تھی۔
اس صورت حال میں لاہور میں فضائی آلودگی اور اسموگ سے پریشان تین طلبا نے صوبے کی اعلیٰ عدالت سے رجوع کیا اور ایک درخواست کے ذریعے یہ استدعا کی کہ فضائی آلودگی سے بچاؤ کے لیےا سموگ پالیسی اور ایکشن پلان ترتیب دیا جائے۔عدالت نے اس درخواست پر ابتدائی کارروائی کے بعد پنجاب حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں سے رپورٹ مانگ لی تھی۔قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، جسٹس مامون رشید شیخ نے درخواست کی خود سماعت کی اور اسے باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کر لیا۔ یہ درخواست نجی کالج کی طالبہ لائبہ صدیقی اوراسکول جانے والی دو بچیوں، لیلیٰ عالم اور مشل حیات نے دائر کی تھی۔فضائی آلودگی اورا سموگ کے تدارک کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں مختلف درخواستیں زیر سماعت رہیں، لیکن یہ اپنی نوعیت کی پہلی درخواست تھی جس میں بچوں نے اس معاملے پر عدالت سے رجوع کیا۔
لاہور ہائی کورٹ میںا سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے تناظر میں مقدمے کی سماعت کے دوران پندرہ نومبر کو چیف جسٹس منصور علی شاہ نے محکمہ ماحولیات کو ہدایت کی کہ ایئر کوالٹی مانیٹرنگ ڈیٹا روزانہ کی بنیاد پر ویب سائٹ پر ڈالا جائے۔اس موقعے پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم بنائی گئی پالیسی کو وقتاً فوقتاً مانیٹر کریں گے۔
اسی دوران پاکستان کے ایئر کوالٹی انڈیکس کی درجہ بندی پر بھی سوالات اٹھے۔ماحولیاتی امور پر کام کرنے والے وکیل اور کارکن رافع عالم کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی نے کہا تھا کہ اگر ائیر کوالٹی انڈیکس 300 سے زیادہ ہو تو یہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہم یہ سن کر حیران رہ گئے۔ دنیا میں کون سی جگہ ہے جہاں 300 اے کیو آئی کو نقصان دہ نہیں تصور کیا جاتا؟ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کا ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ ائیر کوالٹی انڈیکس کے حوالے سے جس معیار اور درجہ بندی کو ملک میں لاگو کیے ہوئے ہے وہ دنیا کے دیگر اداروں کے متضاد ہیں۔
فضائی آلودگی جانچنے والے عالمی ادارے آئی کیو ایئر نے انتیس اکتوبر کو دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست جاری کی جس میں بھارت کا دارالحکومت دہلی پہلے ،لاہوردوسرے اور کراچی چھٹے نمبرپرموجود تھا۔ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق نئی دہلی میں ہوا کے معیار کا تناسب 339 ہونے پر اور لاہور میں 170 سے 220 کے درمیان ہونے پریہ درجہ بندی کی گئی۔لیکن چودہ نومبر کو دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں کراچی، لاہور کو پیچھے چھوڑکر دوسرے نمبر پر آگیاتھا۔تاہم نئی دہلی بہ دستور پہلے ہی نمبر پرتھا۔
بھارت سے دو نومبر کو یہ خبر آئی کہ اس کے دارالحکومت،دہلی میں فضا میں موجود ذرات کی تعداد عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مقرر کردہ معیار سے تقریباً بیس گنا زیادہ ہے جس کی وجہ سےا سکولوں میں چھٹی کردی گئی ہے اور حکام کی جانب سے کئی دیگر پابندیاں عاید کر دی گئی ہیں۔خبر میں بتایا گیا تھا کہ دہلی کے اسکولوں میں شدید فضائی آلودگی کے نتیجے میںپچاس لاکھ ماسک تقسیم کیے جا رہے ہیں اور فضا کے زہریلے ہونے کی وجہ سے حکام طبی ایمرجنسی نافذ کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔شہر میں تمام تعمیراتی کاموں اور آتش بازی پر ایک ہفتے کے لیے پابندی عاید کر دی گئی ہے۔شہر میں ایک نئی عارضی اسکیم شروع کی جا رہی ہے جس کے تحت کسی بھی دن صرف طاق یا جفت اعداد کی حامل نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کو سڑک پر آنے کی اجازت ہوگی۔دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروِند کیجریوال کا کہنا تھا کہ شہر 'گیس چیمبر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ پھیپھڑوں میں داخل ہوجانے والے ٹھوس، خردبینی ذرّات (جنہیں پی ایم 2.5 بھی کہا جاتا ہے) شہر میں 533 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر کے حساب سے موجود ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پی ایم 2.5 کی سطح 24 گھنٹوں میں اوسطاً 25 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر سے زیادہ نہیں ہونے چاہیے۔یاد رہے کہ پارٹی کولیٹ میٹر یا پی ایم 2.5 آلودگی کی ایک قسم ہے جو 2.5 مائیکرو میٹر سے بھی چھوٹے ذرّات پر مشتمل ہوتی ہے۔دوسری قسم ،پی ایم 10 اس سے زیادہ موٹے ذرّات پر مشتمل ہوتی ہے جودس مائیکرو میٹر حجم تک کے ہوسکتے ہیں۔کچھ ذرّات قدرتی طور پر یعنی گرد کے طوفان یا جنگل کی آگ سے پیدا ہوتے ہیں اور کچھ انسانوں کی صنعتی سرگرمیوں سے ۔ ان میں اکثر اتنے چھوٹے ذرّات ہوتے ہیں جو پھیپھڑوں تک پہنچ جاتے ہیں۔بعض غیر معمولی کیسز میں یہ خون تک میں شامل ہوجاتے ہیں۔
ماحول کے تحفظ کے ضمن میں ایک بُری خبر نومبر کی پانچ تاریخ کوامریکاسے آئی کہ اس عالمی طاقت نے ماحولیاتی تحفظ سےمتعلق پیرس معاہدے سے علیحدہ ہونے کا عمل باقاعدہ طور پر شروع کر دیا ہے۔ یورپی ممالک نے ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیاتھا۔اس ضمن میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اقوام متحدہ میں ایک باقاعدہ نوٹس جمع کرا یاتھا۔ اس وقت بتایا گیا تھا انخلا کی کارروائی میں ایک سال لگے گا اور یہ عمل امریکا میں اگلے برس صدارتی الیکشن کے ایک دن بعد، یعنی چار نومبر کو مکمل ہوگا۔ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران پیرس میں طے پانے والے اس معاہدے کی مخالفت کی تھی اور اسے امریکی معیشت کے لیے نقصان دہ قرار دیا تھا۔دو ہزار پندرہ میں طے پانے والے پیرس معاہدے میں صنعتی آلودگی کے ذمّے دار ممالک نے گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کم کرنے کا عہد کیا تھا۔ یہ معاہدہ برسوں کی مسلسل محنت اور طاقت ور ممالک کے درمیان پے چیدہ مذاکرات کے بعد طے پایا تھا۔ امریکا نے اس وقت کے صدر بارک اوباما کی قیادت میں اس پر دست خط کیے تھے۔لیکن امریکا کی با اثر صنعتی لابی ماحول کے تحفظ سے متعلق ان کوششوں کی مخالف رہی ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ کا اس لابی سے وعدہ تھا کہ اگر وہ صدر بن گئے تو امریکا کو اس معاہدے سے نکال لیں گے۔اس فیصلے پر عمل کر کے امریکا اس معاہدے سے الگ ہونے والا دنیا کا پہلا ملک بن جائے گا۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے پچّیس نومبر کواسلام آباد میں کلین گرین پاکستان انڈیکس کا افتتاح کیا۔ اس موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت آہستہ آہستہ پاکستان کو صاف اور سرسبز بنانے کے منصوبے، کلین گرین پروگرام کے لیے مختص کیے جانے والے فنڈز بڑھائے گی۔واضح رہے کہ کلین اینڈ گرین انڈیکس پاکستان کا اپنا ماحولیاتی معیار ہے جس کے تحت کسی بھی شہر کو ماحول کے اعتبار سے اسکور دیا جا سکے گا۔
اقوام متحدہ نے اقوامِ عالم کو چھبّیس نومبر کو یہ بُری خبر دی کہ کرہٴ ارض پر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اخراج بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے اور اس میں کمی کے کوئی آثار نہیں۔ عالمی موسمیاتی ماہرین کے مطابق، پچھلی بار ان نقصان دہ گیسوں کی بلند ترین سطح ایک دہائی قبل ریکارڈ کی گئی تھی۔ لیکن2018میں ہوا میں ان گیسوں کی موجودگی مزید بڑھ گئی۔
موسمیاتی تغیّر کی وجہ سے بحران کی شکل اختیار کرتے ہوئے عوامل اور امریکاجیسے بڑے ملک کے عالمی معا ہد ے سے نکلنے جیسے معاملات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے دوسوممالک کے نمائندے دسمبر کے پہلے ہفتے میں میڈرڈ میں ماحول کے بارے میں ہونے والے سالانہ اجلاس میں شریک ہوئے ۔اجلاس میں2015ميں پيرس ميں طے پانے والے معاہدے کے چندپے چیدہ معاملات کو حتمی شکل دی جانی تھی۔
اس موقعے پر آکسفيم نے اپنی تازہ رپورٹ ميں یہ انکشاف کيا کہ موسمياتی تبديليوں کے نتیجے ميں جگہ جگہ لگنے والی جنگلوںکی آگ، سمندری طوفانوں، سيلاب و ديگر شديد موسمی حالات کی وجہ سے دس برسوں ميں بيس ملين سے زایدافراد بے گھر ہو ئے ۔اس تنظیم کے مطابق گو کہ ان قدرتی آفات کے متاثرین وقتی طورپریا عارضی بنیادوںپربے گھرہوئے تاہم اتنی بڑی تعداد محقّقين کے لیےحیرت کی بات ہے۔ امدادی تنظيم آکسفيم نے خبردار کيا کہ اگر اس ضمن ميں اقدامات نہ اٹھائے گئے، تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ لوگوں کے جنگ و جدل کے بجائے طوفانوں، سيلابوں اور آتش زدگی کے واقعات کی وجہ سے بے گھر ہونے کے امکانات تین گنا زيادہ ہو گئے ہیں۔ رپورٹ ميں يہ بھی بتایا گیا ہے کہ غریب ممالک،بالخصوص زیادہ نازک صورت حال سے دوچار ہيں۔یہاں یہ امر اہم ہے کہ ایک دہائی ميں بے گھر ہونے والے تقریبا بیس ملین افراد ميں سے اسّی فی صد کا تعلق ایشیائی ممالک سے تھا۔ شدید موسمی حالات ميں ایک دہائی ميں پانچ گنا اضافہ بھی نوٹ کيا گيا۔
دسمبر کے پہلے ہفتے میں یہ بُری خبر آئی کہ جرمن واچ نامی عالمی تھنک ٹینک کی گلوبل کلائیمیٹ انڈیکس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں آٹھویںسے پانچویں نمبر پر آ گیا ہے۔