• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’کیر تھر رینج‘ قیمتی معدنیات اور نایاب نسل کی جنگلی حیات سے مالامال پہاڑی خطہ

سندھ دھرتی کے پہاڑ معدنی دولت سے مالا مال ہیں۔ ماہرین ارضیات کے مطابق، سندھ کے پہاڑ تیل ، گیس ،گرینائیٹ، جپسم ، کیلشئیم، چونا، گندھک ، نباتات اور نادر قسم کے چرند پرند سے بھرے پڑے ہیں ۔سندھ کے طویل پہاڑی سلسے کو کھیر تھر رینج کہتے ہیں۔ اس پہاڑی سلسلے کی مختلف چوٹیوںکے الگ الگ مقامات پر الگ الگ نام ہیں مگر یہ تمام چوٹیاں ، چٹانیں اور پہاڑ یاں کیر تھر رینج کا حصہ ہیں۔ اس سلسلہ کوہ کی پہاڑیوں، چوٹیوں اور ان کے نشیبی علاقوں کی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں۔

کارونجھر

دنیا کے 17واں عظیم صحرا تھر پار کر میں واقع کارونجھر پہاڑ موجود ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق یہ پہاڑ ڈھائی سے چار ارب سال قدیم ہے جو کہ 109 پہاڑیوں پر مشتمل ہے۔کارونجھر میں سب سے اہم چیز گرینائٹ ماربل کی موجودگی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہاں 26 بلین ٹن کا گرینائٹ موجود ہے جو مختلف رنگوں میں ہے ۔ اس حوالے سے حکومت سندھ نے فیصلہ کیا ہے کہ گرینائٹ کو مارکیٹ میں لایا جائے تاکہ بیرونی ممالک سے اس کی خریداری نہ کرنی پڑے۔

کارونجھر پہاڑیوں میں موجود گرینائیٹ عالمی معیار کے پیمانے میں آٹھویں نمبر پر آتا ہے ۔کارونجھرپہاڑی سلسلہ 26 کلو میٹر طویل اور سطح سمندر سے ایک ہزار فٹ بلند ہے ۔ اس کے پتھر کی ساخت عام پہاڑ سے زیادہ مضبوط ہے کیونکہ یہ آتش فشاں بھی ہے۔کارونجھر کا پتھر عمارت سازی ،راستوں کی مرمت اور کریش کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں سے ملنے والی چائنا کلی کے نام سے پہاڑی مٹی سرامکس انڈسٹری میں استعمال ہوتی ہے۔

لکی

جامشورو سے سیہون جاتے ہوئے بزرگ لکی شاہ صدر کا مزار آتا ہے ۔ مزار سےکچھ کلومیٹر کے فاصلے پر بلند ترین پہاڑوں کے درمیان گندھک والے پانی کا چشمہ ملتا ہے ۔ یہاں جلدی امراض میں مبتلا لوگ نہانے کے لئے آتے ہیں ۔ لکی کے گرم قدرتی چشمے میں گندھک کی وجہ سے پانی کی رنگت بھی ہرے اور نیلے پن والی ہو گئی ہے ۔لکی کے پہاڑوں سے سرخ مٹی بھی ملتی ہے جو شیشہ سازی میں استعمال ہوتی ہے۔ 

لکی پہاڑ کا پتھرسیمنٹ کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے جبکہ راستوں کی مرمت اور عمارت سازی میں استعمال ہونے والے پتھر حاصل کرنے کے لیے کریشنگ پلانٹس لگے ہوتے ہیں ۔لکی سے نکلنے والی ندی سیہون ڈیم کی طرف جاکے ملتی ہے۔ یہاں پہاڑوں سے ملنے والی جڑی بوٹیاں طب علاج اور دواؤں میں استعمال ہوتی ہیں ۔

گورکھ ہل

کیر تھررینج کا سب سے مشہور پہاڑ گورکھ ہے۔ ضلع دادو کے واہی باندھی شہر سے ایک گھنٹے کی مسافت پر گورکھ ہل اسٹیشن ہے۔ اس کی بلندی 5688 فٹ ہے ۔ گورکھ کے پہاڑسے لائم اسٹون نکلتا ہے جو عمارت سازی اور راستوں کی مرمت کے لئے بہترین ہے۔ گورکھ کے پہاڑ میں جپسم کے ذخائر بھی موجود ہیں۔ جپسم سیم و تھو ر والی زمین کی بحالی کے لئے نہایت کارگرہے ۔گورکھ پہاڑ کی چوٹی جسے زیروپوائنٹ کہتے ہیں، حکومت سندھ نے وہاں ایک ریسٹ ہاؤس اورریسٹورنٹ قائم کیاہے جو سیاحوں کی سہولت کے لئے موجود ہے۔

بڈو جبل

سیہون شریف سے 60 کلو میٹر کے فاصلے پر بڈو نامی بلند و بالا پہاڑ موجود ہے۔ یہ پہاڑ3000 فٹ بلند ہے ۔ اس پہاڑ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں تیل اور گیس کے متعدد ذخائرریافت ہوئے ہیں ۔ اس حوالے سے اب بھی کئی مقامات پر مزید تلاش جاری ہے۔ بڈو جبل سے ماربل کا ذخیرہ بھی ملاہے جو 46 میل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس پہاڑ کا پتھر ریتیلا کہا جاتا ہے جو تعمیرات کے لئے نہایت موزوں ہے۔ یہاں پر قدرتی چشمے بھی ہیں ۔

ڈاڑھیارو

کیر تھر رینج کی سب سےبلند ترین چوٹی اس پہاڑ کی ہے جس کو "کتے کی قبر "کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس چوٹی پر ایک کتے کی قبر ہے جو اپنے مالک سے وفاداری نبھاتے ہوئے پہاڑ کی بلندی پر پہنچ کر مر گیا تھا۔ یہ پہاڑ لاڑکانہ کے شہر قمبر علی خان میں ہے۔ اس پہاڑ کی بلند ی سات ہزار فٹ سے زیادہ ہے۔ اس کا پتھر عمارت سازی سےلے کر راستوں کی تعمیرات میں استعمال ہوتا ہے۔

رنی کوٹ

ضلع دادو میں سندھ کے قدیم ترین پہاڑوں میں رنی کوٹ کے پہاڑ شمار ہوتے ہیں ۔ ان پہاڑو ں کی قدامت اربوں سال بتائی جاتی ہے۔ رنی کوٹ کا پتھر لائم اسٹون ہے۔ یہاں پہاڑوں کی چوٹی پر ہزاروں برس قدیم دیوار قائم ہے جوکہ ایک عجوبہ بھی ہے۔ یہ طویل دیوار 29 کلو میٹر تک بنی ہوئی ہے۔ رنی کوٹ کے پہاڑوں کے درمیان قدرتی چشمے بھی ہیں جبکہ نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔

سونڈا

سونڈا کے پہاڑوں میں چونے کا پتھر ملتا ہے جبکہ تعمیراتی کام کےلئے پتھر بھی یہاں سےحاصل کیا جاتا ہے۔ کراچی اور نیشنل ہائی وے پر اکثر مرمتی کام کے لئے سونڈا کے پہاڑوں کا پتھراستعمال کیا جاتا ہے۔

میٹنگ

جھمپیر کے قریب میٹنگ کے پہاڑوں میں چائنا کلی جو کہ چینی کے برتن اورسرامکس کے لئے استعمال ہوتی ہے بڑے پیمانے پر ملتی ہے ۔ یہاں میلوں رقبے پر چونے کے پتھرکے بڑے ذخائررہ موجود ہیں۔

کھار اور مول

کراچی کے علاقے گڈاپ سے اندر کی جانب سفر کریں تو کھار اور مول کے پہاڑ ہیں ۔ لائم اسٹون اورچونے کے پتھر کا بڑا ذخیرہ ان پہاڑوں میں ملتا ہے ۔ یہ پہاڑ سطح سمندر سے 1500 فٹ بلند ہیں۔

ان پہاڑوں کے درمیان ایک قدیم ندی بھی ہے جو کہ بارانی ہے ۔ مول اور کھار کے پہاڑوں کا سلسلہ ایک طرف تھانہ بولا خان اور دوسری طرف حب بلوچستان تک ملتا ہے ۔ اس علاقے میں مارخور ،پہاڑی بکرے ، چنکا ر،ا ہرن، ہنی بیجر ، گیدڑ اور لومڑ ملتے ہیں جبکہ مور ، تیتر ، ببل ، کوئل ،فاختہ جیسے پرندے پرواز کرتے نظرآتے ہیں ہیں ۔ کھار اور مول پہاڑ میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیوں میں اسد نامی نایاب جڑی بوٹی ملتی ہے جو کہ پیٹ میں پتھری توڑنے میں کارآمد ہوتی ہے ۔

پہاڑوں میں پائی جانے والی جڑی بوٹیاں

بڈو پہاڑ پہ لوز کادرخت ہوتا ہےجس کا میوہ شنگر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ میوہ گرمیوں میں پکتاہے ۔ لوز کا درخت عام نہیں ہے طبی ماہرین اس کی ٹہنیوں اور میوے سے دوائیں بھی تیارکرتے ہیں۔

روہیڑو

کھیر تھر رینج میں روہیڑو عام درخت ہے اس کی لکڑی کی خاصیت یہ ہے کہ اس کے بنے ہوئے فرنیچر کو کبھی کیڑا نہیں لگتا۔

پھیش

یہ پہاڑی علاقے کی ایسی فصل ہے جو لوگوں کے روزگار کا بھی ذریعہ ہے۔ پھیش کے تنکوں سے دستکاری کی کئی چیزیں بنتی ہیں ۔ جیسےکہ چٹائیاں ، ہاتھ کے پنکھے ، ٹوکریاں ، روٹی رکھنے کی چھابیاں ، مصلے ، ٹوپیاں اور جھاڑو وغیرہ بنائی جاتی ہیں۔

کرڑ

پہاڑی علاقے کا درخت ہے جس کے میوے کو اچار، چٹنی اور کھانے میں کھٹائی کے طو رپراستعمال کیا جاتا ہے ۔ یہ جانوروں کو بھی چارے کے طور پر بھی دیا جاتا ہے ۔

دودھی بوٹی

یہ بوٹی جانوروں کے لئے نہایت مفید ہے جن کے استعمال سے دودھ میں اضافہ ہوتا ہے ۔دودھی بوٹی حکمت میں بھی کام آتی ہے۔

نباتات

کارونجھر پہاڑ نباتات کے لحاظ سے بھی قیمتی جانا جاتا ہے۔ طبی ماہرین یہاں کی قیمتی جڑی بوٹیاں اپنی دواؤں میں استعمال کرتے ہیں۔

گوگرال

ایک درخت جس کو " گوگرال " کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں بڑے تعداد میں موجود ہے۔ اس سے نکالے جانے والے قدرتی گوند کے بے شمار فوائد ہیں جو حکمت سے تعلق رکھنے والے ماہرین ادویات میں استعمال کرتے ہیں ۔

تھوہر

"تھوہر" بھی جڑ والا پودا ہے۔ جس کی ٹہنیو ں سے نکلنے والا دودھ اتنا مفید ہے کہ ٹوٹی ہوئی ہڈی پر لگا کر مضبوطی سے باندھنے سے ہڈی جڑ جاتی ہے ۔ حکیم مختلف امراض کے علاج میں تھو ہر کے دودھ کو استعمال کراتے ہیں ۔

ان کے علاوہ کارونجھرپہاڑوں میں میں 126 اقسام کے پودے اور درخت پائے جاتے ہیں۔پہاڑی سلسلے میں سینکڑوں جڑی بوٹیاں ، بیلیں ، پودے اور درخت ایسے ہیں جو کہ عام نہیں ہیں۔جیسا کہ مہاشیر، خاخور، خول بوٹی ، پہاڑ کی کانڈیری ، للڑ ، منڈھیری ، موت مار، سفید پھول کی بوٹی، اک ، ٹوھہ، اور پیرون وغیرہ ہیں ۔

پہاڑی سلسلے کے جانور

کھیر تھر رینج کےمختلف مقامات پر مارخور پایا جاتا ہے۔ یہ خاص پہاڑی جانور ہے جوگورکھ سے بلوچستان کی جانب جانے والےعلاقے میں ملتا ہے۔ مارخو ر پاکستان کا قومی جانور بھی ہے۔ یہ پہاڑی بکرے کی نسل سے ہے۔ یہ نایاب جانوروں میں شمار ہوتا ہے۔ مارخور کی خاصیت یہ ہے کہ اونچی پہاڑیوں پر آسانی سے چڑھ جاتاہے ۔

بھیڑیا

سندھ اور بلوچستان کے پہاڑی سلسلے میں بھیڑ یا پایا جاتا ہے۔ بھیڑیا گورکھ کے پہاڑوں میں بھی نظر آتاہے۔ گورکھ کے فارسی اور بلوچی زبانوں میں معنی بھی بھیڑیا نکلتے ہے ۔ مگرکہیں گرکھ اور کہیں گورغ کہا جاتا ہے۔

سندھ آئی بکس

پہاڑی بکرے کی نسل کا خوبصورت جانور ہے جو کھیر تھر کے پہاڑوں میں ملتا ہے۔ اس وقت سندھ آئی بکس کی نسل نایاب ہوتی جارہی ہے جس وجہ سے شازو نادر ہی نظرآتاہے۔

گیدڑ

پہاڑی علاقوں میں عام طور پر گیدڑ نظر آتا ہے ۔ ٹھٹہ ، گڈاپ، گورکھ ، لکی ، بڈو تک ہرپہاڑی مقام میں اس کی مختلف نسلوں کی افزائش ہے یہ جانور سورج ڈھلتے ہی نمودار ہوتا ہے اوراپنے شکار میں مشغول ہو جاتا ہے۔

چکور

کھیر تھر پہاڑی سلسلے کا پرندہ کس کس مقام پہ ملتا ہے۔ یہ گورکھ کے مقام پہ پہاڑوں سے اوپر اڑتا ہوا نظر آتا ہے ۔ شکاری پرندے اس کو جھپٹنے میں ناکام ہوجاتے ہیں کیوں کہ اس کی اڑنے کی رفتا رخاصی تیز ہوتی ہے۔ چکور پاکستان کا قومی پرندہ بھی ہے۔

باز

ھیر تھر کے طویل پہاڑی سلسلے میں باز ملتا ہے ۔خوبصورت ،سنہرے اور ہلکے بادامی رنگ کا باز پہاڑوں کے علاوہ ندیوں کے قریب بھی نظر آتا ہے۔

سندھ کے پہاڑی علاقوں میں تلور، تیتر ،چنکارا ہرن، باگڑ بلا، لومڑ، خنزیر ، شیش ناگ اور بے شمار ایسے جانور اور پرندے ہیں جن کی نسل نایاب ہوتی جارہی ہے۔ اور ان کے تحفظ کی ضرورت ہے ۔ یہ جانور آج ہیں مگر ان کی غیر قانونی طور پہ نسل کشی ہوتی رہی تو آنے والے وقت میں ان کی نسل مکمل طور پر معدوم ہوجائے گی۔ 

اسی طرح سندھ کے پہاڑوں سےملنے والی معدنیات تیل، گیس، گرینائٹ ، سلیکا، چائنا کلی ،گندھک، کوئلہ ، کنکریٹ ، چونے کا پتھر، مقناطیس پتھر، سرخ مٹی ، ریتی ، بجری ، لائم اسٹون ،کیلشئیم اور جپسم کے بے پناہ ذخائر موجودہیں۔سندھ کے پہاڑوں کو تفریح گاہوں میں تبدیل کیاجائے تو یہ مقامات بھی کوہ مری ، نتھیا گلی اورایوبیہ کی طرح خوبصورت سیاحتی مراکز بن سکتے ہیں۔

پہاڑی سلسلے کی ندیاں اور چشمے

گاج ندی

سندھ کی طویل ندیوں میں گاج ندی کا نام سر فہرست ہے جو بلوچستان کے کرخ پہاڑاور خضدار سے ہوتی ہوئی سندھ کے ضلع دادو کے علاقے جوہی تک سفر کرتی ہے۔ اس ندی کوبارانی کہتے ہیں جس میں برسات کا پانی جمع ہوکے ندی کی صورت میں کھیر تھر سلسلے تک پہنچتا ہے ۔ گاج ندی سال کے بارہ مہینے چلتی رہتی ہے جس میں قدرتی چشموں اور بارانی پانی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر فصلیں کاشت ہوتی ہیں۔

مزارانی

ڈاڑ ہیارو پہاڑ سے قدرتی چشموں سے نکلنے والی ندی لاڑکانہ میں ہے جو کہ حمل ڈھنڈ)ندی ( سے جا ملتی ہے۔

تازہ ترین