سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزائے موت کے فیصلے کو اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان نے غلط قرار دے دیا ہے۔
اسلام آباد میں خصوصی عدالت نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو غدار قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔
اس پر اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان نے کہا کہ پرویزمشرف کو سزائے موت دینے کا فیصلہ غلط ہے، میں واضح طور پر کہتا ہوں اس سے زیادہ ظلم کسی کے اوپر نہیں ہوسکتا، یہ ایسی بات ہے جیسے کسی کے بنیادی حق کو مکمل نظر انداز کردیا جائے۔
انہوں نےکہا کہ ایک شخص کو بیان ریکارڈ کیے بغیر پھانسی کی سزا سنانے پر معافی کی گنجائش نہیں، ایک شخص بیمار ہے اسے کہا جاتا ہے کہ آپ یہاں پر آکر بیان دیں اور ایک شخص جو بیمار نہیں ہے، اسے کہا جاتا ہے کہ آپ باہر چلے جائیں۔
اٹارنی جنرل انور منصور خان کا کہنا تھا کہ فیصلہ جو غلط ہے اس کو غلط کہیں گے اور کہنا چاہیے، جو درخواست دی گئی تھی وہ آج سے ڈیڑھ سال پہلے دی گئی تھی، درخواست تھی کہ سب کو بلایا جائے، جس میں جسٹس ڈوگر اور دیگر بھی شامل تھے لیکن اس درخواست کو انہوں نے ڈس مس کیا تھا اور کورٹ کا یہ کہنا کہ یہ اتنے عرصے کے بعد آئے ہیں یہ مناسب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے پاس اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا حق موجود ہے۔
پاک فوج نے بھی سابق صدر پرویز مشرف کو عدالتی فیصلے میں غدار قرار دینے اور سزائے موت سنانے کے فیصلے پر اعتراض کیا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پرویز مشرف غدار نہیں ہوسکتے، عدالت نے فیصلہ عجلت میں سنایا ہے۔
خصوصی عدالت کے مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کیا اور ان پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوتا ہے۔
فیصلے کے مطابق پرویز مشرف پر آئین توڑنے، ججز کو نظر بند کرنے، آئین میں غیر قانونی ترامیم، بطور آرمی چیف آئین معطل کرنے اور غیر آئینی پی سی او جاری کرنے کے آئین شکنی کے جرائم ثابت ہوئے۔
تین رکنی بینچ میں سے دو ججز نے سزائے موت کے فیصلے کی حمایت کی جب کہ ایک جج نے اس سے اختلاف کیا۔