• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرف کی لاش 3 دن ڈی چوک پر لٹکائی جائے: تفصیلی فیصلہ

سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنائی گئی سزائے موت کے جاری کیے گئے تفصیلی فیصلے میں جسٹس وقار سیٹھ نے کہا ہے کہ پھانسی سے قبل اگر پرویز مشرف فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی لاش ڈی چوک لائی جائے اور 3 روز تک وہاں لٹکائی جائے۔

تفصیلی فیصلے میں خصوصی عدالت نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو 5 مرتبہ سزائے موت کا حکم سناتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف پر 5 چارج فریم کیے گئے تھے، ہر جرم پر ایک بار سزائے موت دی جائے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں پرویز مشرف کو بیرونِ ملک بھگانے والے تمام سہولت کاروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا حکم دیا ہے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا، کور کمانڈرز اس میں ملوث نہیں تھے تو انہوں نے ایک شخص کو غیر آئینی اقدام سے کیوں نہیں روکا؟پاک فوج کے حلف میں انہیں سیاسی سرگرمیوں سے باز رکھنے کا کہا گیا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جمع کرائے گئی دستاویزات واضح ہیں کہ ملزم نے جرم کیا، ملزم پر تمام الزامات کسی شک و شبہے کے بغیر ثابت ہوتے ہیں، ملزم کو ہر الزام پر علیحدہ علیحدہ سزائے موت دی جاتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پرویز مشرف کو گرفتار کر کے لائیں تاکہ سزا پر عمل درآمد کرایا جا سکے۔

فیصلے میں جسٹس وقار سیٹھ نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ پھانسی سے قبل اگر پرویز مشرف فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی لاش ڈی چوک لائی جائے اور 3 روز تک وہاں لٹکائی جائے۔

فیصلے کے مطابق جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار کے اس فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، سزائے موت کا فیصلہ ملزم کو مفرور قرار دینے کے بعد ان کی غیر حاضری میں سنایا۔


تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے نظریۂ ضرورت متعارف نہ کرایا ہوتا تو قوم کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، نظریۂ ضرورت کے باعث یونیفارم افسر نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جس جرم کا ارتکاب ہوا وہ آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے جرم میں آتا ہے، آرٹیکل 6 آئین کا وہ محافظ ہے جو ریاست اور شہریوں میں عمرانی معاہدہ چیلنج کرنے والے کا مقابلہ کرتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہماری رائے ہے کہ سنگین غداری کیس میں ملزم کو فیئر ٹرائل کا موقع اس کے حق سے زیادہ دیا، آئین کے تحفظ کا مقدمہ 6 سال پہلے 2013ء میں شروع ہوکر 2019ء میں اختتام پذیر ہوا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مشرف نے 3 نومبر 2007ء کو آئین پامال کیا، خصوصی عدالت 20 نومبر 2013ء کو قائم کی گئی، ‎31مارچ 2014 ءکو عدالت نے پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی۔

یہ بھی پڑھیئے: مشرف غدار ہیں، پھانسی کا حکم

فیصلے کے مطابق خصوصی عدالت نے 19 جون 2016ء کو پرویز مشرف کو مفرور قرار دیا، خصوصی عدالت کی 6 دفعہ تشکیل نو ہوئی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین عوام اور ریاست کے درمیان ایک معاہدہ ہے، استغاثہ کے شواہد کے مطابق ملزم مثالی سزا کا مستحق ہے۔

جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ

جسٹس نذر اکبر نے اپنے اختلافی نوٹ میں پرویز مشرف کو بری کر دیا ہے۔

جسٹس نذر اکبر نے اپنے 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا، میں نے ادب سے اپنےبھائی وقار احمد سیٹھ صدر خصوصی کورٹ کا مجوزہ فیصلہ پڑھا ہے۔

اختلافی نوٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں ادب کے ساتھ صدرِ عدالت اور اکثریت کی آبزرویشنز اور نتائج سے اختلاف کرتا ہوں، پارلیمنٹ نے پہلے خاموشی اختیار کر کے پھر آرٹیکل 6 میں ترمیم کر کے عدلیہ کو دھوکا دیا، اس عمل کا واحد ہدف 3 نومبر 2007ء کا اقدام تھا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی یا صوبائی اسمبلی میں ایمرجنسی کے نفاذ پر کوئی احتجاج نہیں کیا گیا، ایک بھی رکنِ پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ میں آواز نہیں اٹھائی، قومی اسمبلی نے 7 نومبر 2007ء کو اپنی قرار داد منظور کر کے ایمرجنسی کے نفاذ کی توثیق کی۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سارے پارلیمنٹیرین وکلاء تھے، وہ وکلاء تحریک کا حصہ تھے، کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک لاسکے۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ نے اکتوبر 99ء کی ایمرجنسی کی توثیق نظریۂ ضرورت کے تحت کی، اس وقت پارلیمنٹ نے 17ویں ترمیم کے ذریعے مجرم کو سہولت دی، پھر 18 ویں ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 6 میں ترمیم کی گئی، 18ویں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے7 نومبر 2007ء کی قومی اسمبلی کی قرارداد کی توثیق کی۔

جسٹس نذر اکبر نے اختلافی نوٹ میں غداری کی تعریف کے حوالے سے بلیکس لاء ڈکشنری کا حوالہ بھی دیا۔

اختلافی نوٹ کے مطابق 18ویں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے فیصلہ دیا کہ پرویز مشرف کا 3 نومبر کا اقدام سنگین غداری نہیں تھا، 18ویں آئینی ترمیم منظور کرتے وقت زیادہ تر پارلیمنٹیرین وہی تھے جو 17 ویں آئینی ترمیم کے وقت تھے، پارلیمنٹ کا آرٹیکل 6 میں ترمیم کا ارادہ تھا تو اس کا اطلاق ماضی سے ہونا چاہیے، پارلیمنٹ نے سنگین غداری کے جرم میں ترمیم کر کے دانستہ طور پر 3 نومبر 2007ء کے اقدام کی توثیق کی۔

جسٹس نذر اکبر کے اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پاک فوج کا ہر سپاہی آئینِ پاکستان کی پاسداری کا پابند ہے، آئین توڑنے والے جنرل کا ساتھ دینے والی ہائی کمان آئین کے تحفظ میں ناکام رہی، جنرل مشرف فضاء میں تھے، ان کے ساتھیوں نے غیر آئینی اقدام اٹھا لیا۔

تازہ ترین