• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

گرفتاری سے قبل، نیب کے سوال اور احسن اقبال کے جواب

اسلام آباد (انصار عباسی) نیب کے نئے سیاسی اسیر احسن اقبال کے معاملے میں بیورو کا الزام ہے کہ نون لیگ کے رہنما نے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے لیکن احسن اقبال کا اصرار ہے کہ پروجیکٹ کی کوئی چیز ان کے بطور رکن اسمبلی یا وزیر کے اختیارات سے جڑی نہیں ہے۔

احسن اقبال کو نیب نے کیس کی انکوائری کے مرحلے پر گرفتار کیا ہے اور انہیں بتایا تک نہیں گیا کہ انہوں نے کیا غلط کیا ہے اور کیسے انہوں نے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ گرفتاری سے قبل نیب کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے احسن اقبال نے مخصوص شکایت کے مندرجات کی فراہمی کا مطالبہ بھی کیا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

یہ بھی دیکھئے  : احسن اقبال کو نیب نے گرفتار کرلیا



نیب کے سوالوں کا جواب دینے سے قبل، احسن اقبال نے بتایا تھا کہ نیب کے سوالات حکومتی فیصلوں سے جڑے ہیں جو کئی برسوں کے دوران مختلف وزارتوں اور فورمز پر لیے گئے تھے، ان کے پاس اتنی یادداشت ہے اور نہ ہی وہ ایسی چیزوں کا ذاتی ریکارڈ رکھتے ہیں۔

انہوں نے متعلقہ سرکاری ریکارڈ سے مدد لینے کی درخواست کی تھی تاکہ وہ چیزوں کو یاد کر سکیں لیکن انہیں ایسی سہولت نہیں دی گئی۔ لہٰذا، انہوں نے نیب کو جو جوابات جمع کرائے ہیں وہ ان کے مطابق؛ ان کی یادداشت کے مطابق ہیں۔

ذیل میں نیب کے سوالات اور احسن اقبال کے جوابات پیش کیے جا رہے ہیں:… (اخبار میں جگہ کی کمی کے باعث جوابات کو مختصر کرکے پیش کیا جا رہا ہے) سوال:… کیا نارووال اسپورٹس سٹی (این ایس سی) پروجیکٹ آپ نے شروع کیا تھا؟ جواب:… این ایس سی کا موجودہ پروجیکٹ وزارت کھیل نے 2009ء میں شروع کیا تھا جس پر سی ڈی ڈبلیو پی نے غور کیا تھا اور اسی سال سی ڈی ڈبلیو پی نے اسے قومی منصوبہ قرار دیتے ہوئے منظوری دی تاکہ ملک بھر کے لوگوں کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔

اُس وقت اپوزیشن کے رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے میرے پاس حکومت میں کوئی ایگزیکٹو عہدہ تھا اور نہ ہی این ایس سی پروجیکٹ میں میرے پاس ایسا کوئی اختیار تھا کہ میں وفاقی حکومت کو 2009ء میں پروجیکٹ کے حوالے سے کوئی تجویز پیش کر سکوں جس سے ملک میں نوجوانوں کیلئے صحت مند اور پر امن سرگرمیوں میں مدد مل سکے اور کھیلوں کیلئے معیاری انفرا اسٹرکچر تعمیر کیا جا سکے۔

سوال:… کیا آپ کو معلوم تھا کہ ضلع کی سطح پر ایسا کوئی پروجیکٹ تھا؟ اگر ہاں تو اس کی تفصیل بتائیں؟ جواب:… این ایس سی پروجیکٹ کو ضلع کی سطح کا پروجیکٹ نہ سمجھا جائے۔

روزِ اول سے ہی اسے ایک قومی اور علاقائی سطح کا اسپورٹس پروجیکٹ ہے جس کے ساتھ مختلف پالیسی مقاصد وابستہ ہیں جن میں عالمہ شہریت یافتہ کھلاڑیوں کی تربیت اور انہیں بین الاقوامی معیار کی سہولتوں کی فراہمی، نوجوانوں کو کھیلوں کی طرف راغب کرنا، کھیلوں کے مقابلے اور ایونٹس کے انعقاد کے ذریعے کھیلوں سے جڑی سیاحت کو فروغ دینا، پسماندہ علاقوں میں ترقی کو فروغ دینا، اسپورٹس سٹی کو قومی اثاثہ بنانا اور اسے نمونہ بنا کر ملک کے دوسرے حصوں میں بھی تعمیر کرنا شامل ہیں۔

این ایس سی اپنی نوعیت کا پاکستان کا پہلا رہائشی اور کھیلوں کا مربوط تربیتی مرکز ہے جو چالیس سال میں تعمیر ہونے والا پہلا پروجیکٹ ہے جہاں ملک بھر کے کھلاڑی مستفید ہو سکیں گے اور یہاں انہیں بین الاقوامی سطح کی تربیتی اور فٹنس کی سہولتیں ملیں گی۔

سوال:… سی ڈی ڈبلیو پی کے چیئرمین کی حیثیت سے کیا آپ نے کام کی نوعیت میں تبدیلی یا ترمیم کی کیونکہ نارووال اسپورٹس سٹی کی پہلی فزیبلٹی 20؍ مئی 1999ء کو منظور کی گئی تھی اور اس وقت اس کا تخمینہ 35.40؍ ملین روپے تھا جس میں زمین کی قیمت بھی شامل تھی؟

جواب:… 1999ء میں سی ڈی ڈبلیو پی نے اسپورٹس سٹی کی پہلی پی سی ون کی منظوری دی تھی جس میں یہ ہدایت بھی شامل تھی کہ زمین کی قیمت بھی اس میں شامل کی جائے۔ تاہم، اس پر عمل نہیں ہو سکا تھا۔

پروجیکٹ کی نوعیت پر عملی اور بڑی نظرثانی 2009ء میں ہوئی تھی جس کے مطابق تخمینہ 732.7؍ ملین روپے تھا جسے سی ڈی ڈبلیو پی نے منظور کیا۔ اُس وقت، میں اپوزیشن کا رکن قومی اسمبلی تھا اور میرے پاس کوئی ایگزیکٹو عہدہ بھی نہیں تھا۔

سوال:… آپ نے پی سی ون کی رقم 35.40؍ ملین روپے سے بڑھا کر 97.52؍ ملین روپے کیوں کی؟ تمام تبدیلیاں سی ڈی ڈبلیو پی کے فیصلوں کی روشنی میں ہی کی جا تی ہیں۔

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، 1999ء میں اسپورٹس سٹی کیلئے سی ڈی ڈبلیو پی نے پی سی ون کی جو منظوری دی تھی وہ اصولی تھی۔ منصوبے کی مالیت میں اضافے کی وجہ یہ تھی کہ سی ڈی ڈبلیو پی کے فیصلے کی روشنی میں رقم میں زمین کی قیمت بھی شامل کرنا تھی۔

تاہم، ایسا نہ ہو سکا کیونکہ متعلقہ وزارت نے انتظامی منظوری نہیں دی۔ 2009ء میں جب میں حکومت میں نہیں تھا، پروجیکٹ کے اسکوپ میں ایک بڑی نظرثانی کی گئی تھی جس کی وجہ سے اس کا تخمینہ 97.52؍ ملین سے بڑھ کر 732.7؍ ملین روپے ہوگیا اور اسی وجہ سے سابقہ نظرثانی رقم 35.4؍ ملین روپے سے 97.52؍ ملین روپے تک پہنچنے کی بات غیر اہم ہو جاتی ہے۔

سوال:… پروجیکٹ کے اسکوپ کی تبدیلی کیلئے کیا آپ خود کو مجاز اتھارٹی سمجھتے ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو بتائیے کہ قانون کی وہ کون سی شقیں ہیں جن کی رو سے آپ نے پروجیکٹ میں تبدیلیوں کی منظوری دی؟

جواب:… جی نہیں! میں خود کو قائم مقام وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقیات اور اصلاحات اور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن یا پھر مجاز اتھارٹی نہیں سمجھا کہ میں این ایس سی پروجیکٹ کا اسکوپ تبدیل کر سکوں۔ ایسی کوئی بھی تبدیلی متعلقہ فورم بشمول سی ڈی ڈبلیو پی کے تحت ہوتی ہے۔ تاہم، وفاقی وزیر اور چیئرپرسن سی ڈی ڈبلیو پی کی حیثیت سے یہ میری ذمہ داری تھی کہ میں ترقیاتی منصوبوں بشمول این ایس سی کے حوالے سے اپنی رائے سی ڈی ڈبلیو پی میں پیش کروں اور سی ڈی ڈبلیو پی کی جانب سے کیے گئے کسی بھی فیصلے پر عمل کروں۔

سوال:… کیا آپ جانتے تھے کہ وفاقی حکومت نے 2013ء میں این ایس سی پروجیکٹ کا کنٹرول سنبھال لیا تھا حالانکہ 2010ء میں اس پروجیکٹ کو صوبائی حکومت کے سپرد کیا گیا تھا؟

جواب:… این ایس سی پروجیکٹ 2009ء میں وفاقی حکومت نے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی سے قبل شروع کیا تھا۔ 2011ء تک پروجیکٹ پر وفاقی حکومت 30.5؍ ملین روپے خرچ کر چکی تھی اور سی ڈی ڈبلیو پی کے فیصلے کے تحت پنجاب کی صوبائی حکومت نے بھی پروجیکٹ کیلئے مریدکے نارووال روڈ پر 357؍ کنال زمین کے حصول کیلئے 35.6؍ ملین روپے خرچ کر دیے تھے۔

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، اختیارات کی منتقلی کے بعد، پنجاب کی صوبائی حکومت نے این ایس سی پروجیکٹ کی فنڈنگ میں دلچسپی نہیں دکھائی تھی۔

یہ غیر منطقی بات ہوت کہ پروجیکٹ کو ایسے ہی چھوڑ دیا جائے کیونکہ اس سے قومی خزانے کو نقصان ہوتا۔ ساتھ ہی ملک میں معیاری اسپورٹس انفرا اسٹرکچر کی تعمیر وقت کی ضرورت تھی اور وفاقی حکومت کیلئے یہ اعلیٰ ترجیحی منصوبہ تھا۔

نچلی سطح پر منتقل کیے گئے منصوبوں پر وفاقی حکومت کی جانب سے رقم خرچ کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

آج بھی پی ایس ڈی پی میں کئی ایسے پروجیکٹس ہیں جو شروع تو صوبائی حکومتیں کرتی ہیں لیکن وفاق بھی اس میں فنڈنگ کرتا ہے۔لہٰذا، وفاقی حکومت نے 2013ء میں پروجیکٹ پر دوبارہ کام شروع کیا، یہ اقدام بھی وفاقی حکومت کی پالیسی کے مطابق تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ایسے تمام ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری رہے جو فنڈز کی وجہ سے رکے ہوئے تھے؛ انہیں مکمل کیا جائے۔

2013ء سے 2018ء تک ایسے کئی منصوبے مکمل کیے گئے جن میں لواری ٹنل، کچھی کینال، نیلم جہلم ہائیڈل پروجیکٹ، نیو اسلام آباد ایئرپورٹ پروجیکٹ، لیاری ایکسپریس وے، گوادر کوئٹہ اور گوادر خضدار ہائی ویز وغیرہ شامل ہیں۔

وفاقی حکومت نے کئی پروجیکٹ کو دوبارہ بحال بھی کیا جن میں نلتر اسکی سلوپ کی بہتری، جو اصل میں دور افتادہ علاقہ ہے۔

اسی طرح سوات میں سنتھٹک ہاکی ٹرف بچھانے کا منصوبہ بھی تھا جسے بحال کیا گیا۔ اسی طرح فیصل آباد، واہ کینٹ، کوئٹہ، ایبٹ آباد میں بھی ٹرف بچھانے کے منصوبے بھی منظور کیے گئے تھے اور پی ایس ڈی پی کے تحت ملک بھر میں صوبائی حکومتوں کے تعاون سے 100؍ اسٹیڈیمز کی تعمیر کیلئے فنڈز مختص کیے گئے۔ یہ اسٹیڈیم ضلعی سطح پر تعمیر ہونا تھے۔ سی ڈی ڈبلیو پی نے 2017ء میں چمن بلوچستان میں فٹ بال گرائونڈ کی تعمیر کی منظوری بھی دی تھی۔

کئی سال بعد اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے باوجود نیشنل گیمز کا اہتمام بھی کیا گیا اور وفاقی حکومت نے انہیں اسپانسر کیا۔

ایچ ای سی کو فنڈز دیے گئے تاکہ یونیورسٹی کی سطح پر اولمپکس کا انعقاد کرایا جا سکے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت نے کھیلوں کو اعلیٰ ترجیح پر رکھا تھا حالانکہ کھیلوں کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہو چکا تھا۔

سوال:… کیا آپ جانتے ہیں کہ وزارت پلاننگ و ڈویلپمنٹ نے این ایس سی پروجیکٹ کیلئے پی ایس ڈی پی 2013-14ء کے دوران پلاننگ و ڈویلپمنٹ کے مشیر کے مشورے پر 200؍ ملین روپے کی منظوری دی تھی؟ حالانکہ وزارت کھیل کی جانب سے کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا تھا؟ کیا آپ نے ایسے کرنے کیلئے کہا تھا؟

جواب:… چونکہ این ایس سی پروجیکٹ پر بحالی کیلئے بھرپور غور کیا جا رہا تھا، یہ ضروری تھا کہ پی ایس ڈی پی میں اس کیلئے گنجائش رکھی جائے تاکہ پروجیکٹ پر بلاتاخیر کام شروع کیا جا سکے۔ لہٰذا، وزارت بین الصوبائی رابطہ کے ساتھ مشاورت کے بعد پی ایس ڈی پی 2013-14ء کے تحت این ایس سی پروجیکٹ کیلئے 200؍ ملین روپے مختص کیے گئے۔

حتیٰ کہ آج بھی ایسے کئی پروجیکٹ 2019-20ء کے پی ایس ڈی پی میں موجود ہیں جن کیلئے فنڈز تو مختص کیے گئے لیکن ان کی منظوری سی ڈی ڈبلیو پی کو کرنا ابھی باقی ہے۔ پی ایس ڈی پی میں رقم مختص کرنے کی تجاویز متلعقہ فورمز بشمول قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) سے منظوری کیلئے جمع کرائی جاتی ہیں۔ پی ایس ڈی پی میں تمام ایلوکیشن کی منظوری کابینہ دیتی ہے جس کے بعد اسے قومی اسمبلی سے منظور کرایا جاتا ہے۔

پی ایس ڈی پی کے فورم پر مشاورت کے بعد ہی تمام متعلقہ فورمز سے این ایس سی پروجیکٹ کیلئے 200؍ ملین ڈالرز کی منظوری حاصل کی گئی تھی۔

سوال:… این ایس سی کیلئے زمین کی نشاندہی کے معاملے میں کسی بھی مرحلے پر آپ شامل / شریک رہے تھے؟ اگر جواب ہاں ہے تو بتائیے کہ کن شرائط پر زمین منتخب کی گئی تھی؟

جواب:… جس زمین پر این ایس سی تعمیر کیا گیا تھا؛ وہ صوبائی حکومت نے 2008ء میں ضلعی انتظامیہ کے توسط سے منتخب کی تھی۔ زمین کے حصول کا پورا عمل ضلعی انتظامیہ نے مکمل کیا تھا۔ میں نے اس ضمن میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

سوال:… نارووال اسپورٹس سٹی سائٹ کے حوالے سے خسرہ نمبر کی نشاندہی میں آپ نے کوئی کردار ادا کیا تھا؟ اگر ہاں تو تفصیلات فراہم کریں؟

جواب:… میں نے این ایس سی پروجیکٹ کیلئے کوئی خسرہ نمبر فراہم نہیں کیے تھے۔ 1999ء سے قبل، ممکن ہے میں نے سرکاری ایجنسیوں کے کنسلٹنٹ کی مشاورت سے زمین کے خسرہ نمبر بتائے ہوں تاکہ زمین کی فوری پراسیسنگ کی جا سکے لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے؛ حکومت نے زمین حاصل کی تھی اور نہ ہی پروجیکٹ شروع ہو سکا تھا۔

سوال:… اربوں روپے مالیت کا پروجیکٹ ضلعی سطح پر شروع کرنے کی کیا منطق تھی؟ آپ نے ضلع نارووال کو کیوں ترجیح دی؟

جواب:… یہ ضلعی نہیں بلکہ علاقائی اور ملکی سطح کا منصوبہ ہے جہاں ملکی و بین الاقوامی سطح کے کھیلوں کی مربوط رہائشی اور تربیتی سہولتیں دستیاب ہیں جن کے کئی پالیسی مقاصد بھی ہیں۔

سوال:… این ایس سی پروجیکٹ کیلئے مختص کردہ رقم 35.450؍ ملین روپے سے بڑھا کر 2.994؍ ارب روپے کرنے کے حوالے سے آپ نے کوئی ہدایات دی تھیں؟

جواب:… کسی بھی پروجیکٹ پر وزارت پلاننگ ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم اس وقت تک غور نہیں کرتی جب تک متعلقہ وزارت / ڈویژن کا سیکریٹری اس کی مالکی نہ کرے اور اس پر دستخط کرکے منظور نہ کرے۔ کوئی بھی وزارت میری طرف سے کسی بھی طرح کی غیر قانونی ہدایت لینے کی مجاز نہیں، کیونکہ دیگر وزارتیں اپنے اپنے وزیر کو جواب دہ ہوتی ہیں۔ میری طرف سے اگر دیگر وزارتوں کو کوئی بات منتقل بھی ہوتی ہے تو وہ مشورے جیسی ہوتی ہے جس پر عمل کرنا ان کا فرض نہیں۔

ہر وزارت پر اپنے رولز آف بزنس کے مطابق کام کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جن پر قانوناً سختی سے عمل کرنا ان کا فرض ہے۔ پروجیکٹ کے اسکوپ میں کی جانے والی مختلف نوعیت کی تبدیلیاں، میرے خیال میں، اس میں بہتری لانے کی غرض سے کی گئی ہوں گی تاکہ اس کی یوٹیلیٹی اور افادیت، قدر اور پاکستان کے پہلے ماڈل اسپورٹس سٹی کی حیثیت سے پر ا ثر ہونے کا عمل بہتر ہو سکے۔ تاہم، پروجیکٹ کیلئے مختص رقم میں تبدیلی / اضافہ مجاز محکموں اور فورمز بشمول سی ڈی ڈبلیو پی، این ای سی، کابینہ اور قومی اسمبلی نے منظور کیا اور وہ بھی مکمل احتیاط اور مشاورت کے ساتھ۔

سوال:…کیا آپ نے این ایس سی کے ڈیزائن کے حوالے سے کنسلٹنٹس کو کوئی ہدایات دی تھیں؟

جواب:… جی نہیں، میں نے کنسلٹنٹس کو کوئی ہدایات نہیں دیں۔ کنسلٹنٹ کلائنٹ وزارت کے ماتحت کام کرتے تھے۔ وزارت پلاننگ، ڈویلپمنٹ اور ریفارمز کا کام بڑے ترقیاتی منصوبوں کے ڈیزائن کی منظوری اور ان کی نگرانی اور ان پر عملدرآمد ہے، اور ان پروجیکٹس پر بحث اور منظوری مختلف فورمز کے ذریعے ہوتے ہیں جن میں سی ڈی ڈبلیو پی اور این ای سی شامل ہیں جن کا قیام اسی قانون کے تحت ہوا ہے۔

تازہ ترین