بالائی سندھ کے گھوٹکی ، سکھر ، شکارپور ، جیکب آباد ،کندھ کوٹ ، کشمور، لاڑکانہ اور خیرپور کے علاقوں میں ایک درجن سے زائد قبائل آباد ہیں جس کی وجہ سے یہ اضلاع قبائلی تنازعات کی زد میں رہتے ہیں۔قبائلی افراد ایک غیر اہم بات کو اپنی عزت، غیرت اور انا کا مسئلہ بنالیتے ہیں جس کی وجہ سے معمولی تکرار کے بعد معاملہ ہاتھا پائی اور قتل و غارت گری تک جا پہنچتا ہے۔
روزنامہ جنگ کی جانب سے کیے جانے والے سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر قبائلی تنازعات جہالت اورقبائلی سرداروں کی جانب سے اپنی رٹ برقرار رکھنے کے لیے رونما ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ کسی قبیلےکے فرد کی بکری کا دوسرے قبیلے کے کھیت میں جاکر گھاس چرنا، معمولی سی چوری کا واقعہ ، نہری پانی کا رخ بدلنے کے واقعات زبانی تکرار کے بعد خوں ریز تصادم میں تبدیل ہوجاتے ہیں جن میں ان گنت جانیں ضائع ہوتی ہیں۔
بالائی سندھ کےمختلف علاقوں میں چند سالوں کے دوران دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ قبائلی تنازعات کے خاتمے کے لیے مذکورہ علاقوں سے جہالت کا خاتمہ اورعلم کا فروغ ضروری ہے۔ جہالت کے اندھیرے نے لوگوں کو عقل و شعور سے عاری بنادیا ہے جس کی وجہ سے وہ معمولی معمولی سے بات پر طیش میں آجاتے ہیں جس کا فائدہ قبائلی سردار اٹھا کرانہیں مخالف قبائل سے اپنی دیرینہ دشمنیاں نکالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
خیرپو رضلع میں نصف صدی سے مختلف قبائل کی آپس میںدشمنیاں چل رہی ہیں جس کے نتیجے میں اب تک درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں اوربے شمار معذور ہو کر اپنے اہل خانہ پر بوجھ بن کر زندگی گزار رہے ہیں۔ گذشتہ 50برس کے دوران جن قبائل کے درمیان تصادم کے واقعات ہوئے ان میں کلہوڑا، ناریجا قبائل، سولنگی جاگیرانی ،سہاگ قبائل ،کھرل ناریجا قبائل، بھٹا ناریجا قبائل، حاجی شاہانی قبائل، اڈھا الرا انصاری قبائل، رند قبائل اور دیگر شامل ہیں۔
دشمنیوں کی وجہ سے کئی قبائل کے افراد ہتھیار اٹھا کر جنگلات میں چلے گئےاور انہوں نےوہاں اپنے گروہ بناکر کمین گاہیں قائم کیں اور بے روزگار نوجوانوں کو اپنے گروہوں میں بھرتی کیا۔ ان گروہوں نے بعد ازاں ڈاکوؤں کے منظم گروہوں کی شکل اختیار کرکے امن و امان کی صورت حال بدسے بدتر کردی ہے۔
دریائے سندھ جو خیرپور ضلع سے گزرتا ہے اور ببرلو سے سگیوں تک 150 کلو میٹر تک کا علاقہ وسیع اور گھنے جنگلات پرمشتمل ہے۔ تقریباً تین عشرے قبل ان جنگلات میں ڈاکوؤں نے اپنا راج قائم کرلیا جس سے بالائی سندھ کے بیشتر علاقے بدامنی کی لپیٹ میں آئے ۔ڈاکوگروہوں نے سرعام مسافربسیں اغوا کیں شہر و دیہات پر حملے کئے کاروباری افراد کو نشانہ بنایا۔
اس صورت حال کو دیکھ کرسابق وزیر اعظم، میاں محمد نواز شریف نے اپنی حکومت کے پہلے دور میں پاک آرمی کے جوانوں کو جنگلات میں اتار کر ڈاکو گروہوں کے خلاف سرچ آپریشن کرایا جبکہ سندھ کے ڈاکوگروہوں کی جانب سے پنجاب اور بلوچستان کے شہری علاقوں میں بنائی گئی کمین گاہوں پر بھی کارروائیاں ہوئیں جس کے نتیجے میں کئی نامی گرامی ڈاکو مارے گئے اور کچھ عرصہ بعد ہی سندھ میں امن قائم ہوگیا۔
تاہم اب ایک بار پھر کلہوڑا ، ناریجا، بھٹا،ناریجا اور دیگر قبائل کے درمیان تنازعات نے بڑھ کر خونی تصادم کی شکل اختیار کرلی ہے۔حال ہی میں رونما ہونے والے واقعات کے دوران بھٹا قبیلے کا پولیس اہلکارعطا محمد بھٹو پولیس ٹریننگ سینٹر کے سامنے قتل کردیا گیا۔ پولیس اہلکار کی موت کے بعد پولیس نے ناریجا قبیلے کے 12افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا۔ بعد ازاں ایس ایس پی خیرپو ر عمر طفیل کے احکامات پر پولیس نے مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر مقدمے میں نامزد پانچ افراد کو گرفتار کرلیا۔
واضح رہے کہ بھٹہ اور ناریجا قبائل کے درمیان قبائلی دشمنی چل رہی ہے جس کے نتیجے میں دونوں قبائل کے نصف درجن سے زائدلوگ مارے جا چکے ہیں ۔اسی طرح حالیہ دنوں میں کچے کے علاقے صادق کلہوڑو میں کلہوڑا برادری کا چرواہا سجاد کلہوڑو مارا گیا مسلح افراد اس کو گولیوں کا نشانہ بنانے کے بعد ان سے بھینسیں اور گائے بھی چھین کر لے گئے یہ۔ واقعہ بھی کلہوڑا اور ناریجا قبائل کی قبائلی دشمنی کا شاخسانہ ہے۔ چرواہے سجاد کلہوڑو کے قتل کا مقدمہ 15سے زائد افراد کے خلاف درج کیا گیا کلہوڑا قبائل کے مطابق کافی روز گذر جانے کے باوجود واقعے میں ملوث ملزمان کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔
علاقے کی سماجی تنظیموں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ خیرپور میں بیشتر قبائل کی قبائلی دشمنی اراضی کے تنازعات پر چل رہی ہے جس سے امن و امان کی صورتحا ل بگڑی ہوئی ہے اس لیے سب سے پہلے اراضی کے تنازعات حل کرائے جائیں اور قبائلی دشمنیوں میں ملوث روپوش افراد کو قانون کی گرفت میں لا کر امن وامان قائم کیا جائے۔ صدیوں کی دشمنیوں کے خاتمے کے لیے سندھ اسمبلی سے قانون سازی کرائی جائے اور پولییس کو مذکورہ قوانین پر عمل درآمد کرانے کا پابند بنایا جائے۔