دنیا کے مہذب ممالک میں جیلیں اصلاح خانے اور پولیس اسٹیشن جرائم کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بیرونی ممالک میں پولیس کی وردی کو عوام کے تحفظ کی علامت سمجھا جاتا ہے ، جوں ہی پولیس کا کوئی سپاہی نظر آتا ہے جرائم پیشہ افراد واردات ادھوری چھوڑ کروہاں سے فرا ہونےمیں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔
ان ممالک میں پولیس اہل کاروںاور افسران کی بھرتی کے وقت دیگر محکموں کے مقابلے میں انتہائی احتیاط برتی جاتی ہے اورہر اہل کار کے کوائف کی مکمل چھان بین ہوتی ہے تاکہ کوئی غلط کردار کا شخص بھرتی نہ ہوجائے۔ان ممالک کے مقابلے میں ہمارے یہاں پولیس میں بھرتی کا معیار انتہائی ناقص ہے۔ پولیس کی بھرتی میںسرکاری اثر رسوخ سفارش اور سیاسی دباؤ کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔
حال ہی میں سندھ میں پولیس اہلکاروں کی جوبھرتی کی گئی ہے اس کے بارے میں بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چوروں کو چوکیدار بنایا گیا ہے ۔ اس کی مثالیں آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں اور مختلف وارداتوں کے دوران پولیس اہلکاروں کے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ایسی ہی ایک واردات ،نواب شاہ شہر کے گنجان آباد علاقے لیاقت باد کے محلے شہداد پور روڑ پر سامنے آئی جب سی سی ٹی وی کیمرہ کے ذریعے موٹر سائیکل چراتے ہوئے دو پولیس اہلکاروں کی فوٹج نے ان کی مخبری کردی اور وہ موقع پر ہی دھر لیے گئے۔
اس سلسلہ میں ایس ایچ او ایئرپورٹ تھانہ قمررضا منگہنار نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس کانسٹیبل بشیر زرداری اور تیمور دائودی جوکہ ائیرپورٹ پولیس اسٹیشن پر متعین ہیں انہیں اسی تھانے کی پولیس نے اس وقت رنگے ہاتھوں گرفتار کیاجب وہ اس علاقے میں دوموٹر سائیکل چرارہے تھے۔ انہیںسی سی ٹی وی کیمرہ کی مدد شناخت کرکے لاک اپ کردیا گیا۔ دوسری واردات گائوں کھائی کھوسہ قاضی احمد میں ہوئی جہاں ایس ایچ او ملک ریاض نے جوئے کے اڈے پر چھاپہ مارا تاہم جواری فرار ہوگئے جبکہ اڈہ چلانے والا پولیس کانسٹیبل صالح زرداری کو گرفتار کرلیا گیا۔ ایس ایچ اوکا کہنا تھا کہ مفرور جواریوں کی تلاش جارہی ہے ۔
اس وقت ضلع شہید بے نظیر آباد میں پولیس افسران کی جانب سے منشیات ، گٹکا،مین پوری کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر کارروائیاں کرتے ہوئے بھاری مقدار میں منشیات کی برآمدگی اور ملزمان کی گرفتاری کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن یہ کاروبار اس کے باوجود جاری ہے۔اگر پولیس حکام کے اعلانات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اب تک ٹنوں کے حساب سے چرس اور کئی من ہیروئن برآمد کی جا چکی ہے۔ گٹکا مین پوری اور انڈین Z-21 کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے ۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ چند ماہ پہلے ضلع میں ٹرین یا بس کے مسافروں کی تحویل سے دستی بم برآمد کئے گئے تھے لیکن اس پر پولیس حکام اور انتظامیہ کی جانب سے خاموشی اختیار کرلی گئی۔ آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ برآمد ہونے والے دستی بموں اورملزمان کا کیا بنا۔علاوہ ازیں انسداد دہشت گردی کے جج رسول بخش سومرو کی عدالت نے سندھ کی ایک سیاسی شخصیت سردار اسماعیل ڈاہری کو تین مقدمات میں34سال قید بامشقت کی سزا سنائی ہے ۔
استغاثہ کے مطابق 2018 میںرینجرز کی بھاری نفری نے دولت پور میںان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کراینٹی ایئر کرافٹ گن کے گولے، 5 کلاشن کوف رائفلیں،دستی بم ،دھماکہ خیز مواد اور بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد کرکے اسماعیل ڈاہری کے علاوہ چالیس دیگر افراد کو گرفتار کیا تھا، جنہیں بعد میں رہا کردیا گیا۔
چند روز قبل ڈی سی آفس کے احاطے میں ایک بچی فضاء حوت کے والد کی یہ فریاد سنی گئی کہ میری چار سالہ بیٹی کو قتل کرنے والے اب تک پولیس کی گرفت سے آزاد ہیں۔جب کہتیرہ سالہ صائمہ چانڈیو اور آٹھ سالہ نمرہ چانڈیو کے قاتل پولیس کے مطابق گھر چھوڑ کر فرار ہو گئے ہیں۔
کاری قرار دے کر قتل کی جانے والی بچوں کو صحن میں دفن کردیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں ایس ایس پی شہید بے نظیر آباد تنویر حسین تنیو کا کہنا ہے کہ قانون سے کوئی بالا تر نہیں اور قاتل چاہےکتنے ہی با اثر کیوں نہ ہوںقانون کی گرفت میں ضرور آئیں گے۔