سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ میری طبعیت بہتری کی طرف گامزن ہے۔
پرویز مشر ف نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ بہت اچھا ہے، اس فیصلے سے مجھے بہت خوشی ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دیا ہے۔
سابق صدر کا کہنا تھا کہ صحت یابی کے لیے دعائیں کرنے پر سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ دینے والی خصوصی عدالت کی تشکیل غیر آئینی قرار دے دی ہے۔
جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں فل بنچ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا ٹرائل کرنے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ سنایا۔
لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کا قیام کالعدم قرار دیتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ آرٹیکل 6 میں ترمیم کا اطلاق ماضی سے نہیں کیا جاسکتا، عدالت نے کرمنل لاء اسپیشل کورٹ ترمیمی ایکٹ 1976 کی دفعہ 4 کو کالعدم قرار دے دیا۔
خصوصی عدالت کی تشکیل کے خلاف سابق صدر پرویز مشرف کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔
وفاقی حکومت کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے خصوصی عدالت کی تشکیل کی سمری اور ریکارڈ عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پرویز مشرف کے خلاف کیس سننے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کابینہ کی منظوری کے بغیر ہوئی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے سیکریٹری داخلہ کو پرویز مشرف کے خلاف کمپلینٹ درج کروانے کی ہدایت کی، 18 ویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کو یا نیا نوٹیفیکیشن جاری کرنا چاہیے تھا یا پرانے نوٹیفیکیشن کی تصدیق کرتی، 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل 6 میں اعانت اور معطل رکھنے کے الفاظ شامل کیے گئے، ایمرجنسی میں بنیادی حقوق معطل کیے جاسکتے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے کہا کہ آئین کے تحت ایسا کیا جا سکتا ہے، آرٹیکل 6 میں آئین معطل رکھنے کا لفظ پارلیمنٹ نے شامل کیا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ تو پھر آئین سے انحراف کیسے ہو گیا؟ آپ نے 3 لفظ شامل کر کے پورے آئین کی حیثیت کو بدل دیا، اس کے ساتھ ساتھ اپ نے ایمرجنسی کو شامل رکھا ہوا ہے۔
اشتیاق احمد خان نے کہا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، گورنر پنجاب پھر چیف جسٹس پاکستان اور پھر صدر مملکت کی منظوری کے بعد نوٹیفیکیشن جاری کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے لیے مذکورہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا، نئی قانون سازی کے بعد جرم کی سزا ماضی سے نہیں دی جا سکتی۔
اس موقف پر بینچ میں موجود جسٹس مسعود جہانگیر نے کہا کہ پھر ہم سمجھیں کہ جو پرویز مشرف کا موقف ہے وہی آپ کا موقف ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سر میں تو ریکارڈ کے مطابق بتا رہا ہوں۔
ان تمام دلائل کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی آئینی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کے خلاف خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی، غیر قانونی اور کالعدم قرار دے دیا۔
عدالت نے قرار دیا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے وقت آئینی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے اور خصوصی عدالت میں شکایت درج کرتے وقت قانون کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے ملزم کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنانے کو بھی غیر اسلامی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملزم کی غیر موجودگی میں ٹرائل کرنا غیر آئینی ہے۔
اس سے قبل کیس کی گزشتہ سماعت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان نے سابق صدر کے خلاف فردِ جرم پڑھ کر سنائی تھی اور کہا تھا کہ فردِ جرم میں لکھا گیا ہے کہ ایمرجنسی لگا کر آئین توڑا گیا ہے۔
پرویز مشرف کی جانب سے 85 صفحات پر مشتمل دائر درخواست میں عدالتی فیصلے کے پیرا گراف 66 پر بھی اعتراض اٹھایا گیا تھا اور مؤقف اختیار کیا تھا کہ خصوصی عدالت نے عجلت میں فیصلہ سنایا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سابق صدر کو دفاع کا موقع نہیں دیا گیا، جبکہ خصوصی عدالت کے رکن جسٹس نذر اکبر نے اختلافی فیصلے میں لکھا کہ 2007ء میں آئین کی معطلی غداری کے زمرے میں نہیں آتی تھی۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ خصوصی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد روکا جائے۔
خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف گزشتہ ماہ 17 دسمبر کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا۔