افغانستان ایک ایسا ملک ہے، جو کئی دہائیوں سے ملکی خانہ جنگی کا شکار ہے۔ زمانہ ٔ امن سے لے کر جنگ کے ادوار تک اس ملک میں بہت سی اَن کہی کہانیاں ہیں۔ افغان ناول نگار خالد حسینی کا ناول’’دی کائٹ رنر‘‘ ایسی ہی کہانی ہے، جس میں ایک کٹی ہوئی پتنگ کے پیچھے بھاگتے ہوئے بچے کو ادبی استعارے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ دراصل یہ ادبی اصطلاح صرف استعارہ ہی نہیں بلکہ کہانی میں کئی ایسے کرداروں کی سرگزشت ہے، جنہوں نے اپنی جان بچانے کے لیے جنت سے جہنم بنتی ہوئی سرزمین سے راہِ فرار اختیار کی۔
یہ ناول امریکا کے مقبول ترین اخبار’’نیویارک ٹائمز‘‘ کی فروخت ہونے والی بہترین کتابوں کی فہرست میں شامل ہوا، دو سال تک اس نے اپنی مقبولیت کے درجہ کو برقرار بھی رکھا، جو اپنی نوعیت کا خود ایک ریکارڈ ہے۔ یہ وہی اخبار ہے، جس نے اس کہانی کو مسترد کر دیا تھا، جب مصنف نے اس کا ابتدائی خیال ایک مختصر کہانی کے طور پر اس کو ارسال کیا تھا۔
ایک دوست کے مشورے پر مصنف نے پھر خود اس کہانی پر کام کیا، اپنے دیگر دوستوں اور ادبی مشیر ومدیر کی مشاورت سے حتمی طور پر لکھا۔ شروع میں یہ پیپر بیک ایڈیشن کے طور پر شایع ہوا۔اپنی اشاعت کے بعد امریکا سمیت دنیا بھر میں مقبول ہوااور آج تک اس کی مقبولیت کا سفر جاری ہے۔ صرف امریکا میں چھ ملین سے زائد کاپیاں فروخت ہونے کے علاوہ، دنیا کے مختلف ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو رہا ہے۔اردو زبان میں بھی اس ناول کا ترجمہ ہوا۔
ناول کے مصنف افغان نژاد امریکی’’خالد حسینی‘‘ جو پیشے کے اعتبارسے ڈاکٹرتھے، اب بطور ادیب پیشہ ورانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ ساٹھ کی دہائی میں افغانستان میں پیدا ہوئے، ان کے والد افغان سفارت کار تھے، والدہ تدریس کے شعبے سے وابستہ تھیں۔ 70 کی دہائی کے نصف میں اپنے خاندان کے ہمراہ فرانس چلے گئے، جبکہ اِسی دہائی کے آخر میں افغانستان پر سوویت یونین کی چڑھائی کے بعد کبھی وطن واپس نہ لوٹ سکے، یوں امریکا میں خاندان سمیت سیاسی پناہ حاصل کی اور مستقل سکونت کی غرض سے وہاں منتقل ہوگئے۔ بلوغت اور تعلیم کے باقی مدارج وہیں طے کیے۔
مصنف امریکا میں ہوش سنبھالنے سے پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھنے تک، اپنے آبائی وطن کے بارے میں بھی سوچتے تھے، میڈیا کے ذریعے انہیں اندازہ ہوتا تھا کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے، ایسے ہی خبروں کے ریلے میں ایک بار ان کو پتا چلا، افغانستان میں پتنگ بازی پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
یہیں سے ان کے ذہن میں ایک کہانی کا خاکہ ُابھرا، پہلے تو اس کو مختصر کہانی کے طور پر لکھا، پھر ایک دوست کے مشورے پر ناول کی صورت میں ڈھالا۔ یہی کہانی’’دی کائٹ رنر‘‘ تھی، جس کو ان کے اندازے سے بھی زیادہ مقبولیت ملی۔ انہوں نے مزید دو ناول لکھے، جن کے نام’’اے تھائوزنڈ سپیلڈنڈ سنز‘‘ اور’’اینڈ دی مائونٹینز ایکوڈ‘‘ ہیں۔ گزشتہ برس ان کا ایک اور ناول ’’سی پریز‘‘ شائع ہوا، لیکن جو مقبولیت ’’دی کائٹ رنر‘‘ کے حصے میں آئی، وہ پھر کسی اور ناول کا مقدر نہ بن سکی۔
امریکا کے سیاسی و ادبی حلقوں میں خالد حسینی کو بہت توجہ ملی۔ انہوں نے ایک غیر منافع بخش تنظیم بھی بنائی تاکہ افغان مہاجرین کے لیے کام کرسکیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے انہیں مہاجروں کی بہبود کے لیے خیرسگالی کا نمائندہ بھی مقرر کیا گیا۔ 2001 میں اپنا پہلا ناول’’دی کائٹ رنر‘‘ لکھنا شروع کیا تھا، جس کے لیے اپنی ملازمت پر جانے سے پہلے علی الصبح بیدار ہوکر یہ ناول لکھتے تھے۔ 2003 میں ناول کی اشاعت کے بعد مقبولیت ملنا شروع ہوئی تو اگلے سال اپنے طبی پیشے کو خیر باد کہہ دیا اور پوری توجہ لکھنے پڑھنے پر مرکوز کردی۔
ان کی کہانیوں میں افغانستان کے فطری مناظر جابجا ہیں، جن میں سے اکثر ناولوں کے عنوانات بھی بنتے ہیں۔ خالد حسینی کو بطور ناول نگارشاید اس لیے بھی پہلا ناول لکھنے پر امریکا میں زبردست پذیرائی ملی، کیونکہ یہ وہ وقت تھا، جب امریکا نائن الیون کے حملوں کے بعد افغانستان میں داخل ہو رہا تھا یہی وجہ ہے، جب خالد حسینی نے یہ ناول لکھا، تو اُس وقت کے صدر جارج بش اور ان کی اہلیہ نے بھی اس کاوش کو سراہا اور انہیں وائٹ ہائوس مدعو کیا۔
بچپن میں صوفی شعرا کو پڑھنے والے اس ناول نگار کی اپنی ذاتی زندگی کی جھلک بھی اس پہلے ناول میں جھلکتی ہے، شاید اسی لیے ناول کی کہانی اور کردار جس حساسیت کے ساتھ پیش کیے گئے، وہ ان کے ذاتی تجربات کا پرتو بھی ہیں، انہی کو ناول میں منعکس کیا گیا ہے۔ اسی طرح افغان معاشرت اور تہذیب بھی کہانی میں اچھی طرح بیان ہوئی، اس سے قارئین اندازہ کرسکتے ہیں، افغانستان بھی کبھی امن کا گہوارہ ہوتا تھا۔
ناول’’دی کائٹ رنر‘‘ کی کہانی دو دوستوں کے اردگرد گھومتی ہے، جو ایک پُرامن ملک افغانستان میں رہتے ہیں۔ ان کے نام عامر اور حسن ہیں۔ عامر ایک کھاتے پیتے گھرانے کا بچہ ہے، جس کی دوستی اپنے گھر میں پرانے ملازم کے بیٹے حسن سے ہے۔ دونوں کا بچپن ایک ساتھ گزرا، دونوں پتنگ بازی کے شوقین بھی ہیں۔
آقا اور غلام کے رشتے میں بندھے ہونے کے باوجود دونوں بچوں میں بھائیوں جیسا پیار ہوتا ہے، لیکن پھر زندگی کچھ ایسے موڑ لیتی ہے، جس میں دونوں کے درمیان فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ دونوں کی بچپن کی کہانی کے ساتھ ساتھ ایک پُرامن افغانستان کی تباہی کا دور بھی شروع ہوتا دکھایا گیا ہے، جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوجاتی ہیںاور پھر ایک طویل جنگی رسہ کشی کے بعد افغان طالبان برسرِاقتدار آجاتے ہیں۔
اسی جنگی پس منظر میں عامر اپنے والد کے ہمراہ کابل سے براہ راستہ پشاور، امریکا پہنچنے میں کامیاب رہتا ہے۔ بڑا ہوکر ادیب بنتا ہے، اپنے ضمیر کی خلش، آبائی گھر کی یادیں، بچھڑے ہوئے کردار، یہ سب مل کر اس کے شعور کی تعمیر کرتے ہیں، جن کی خاطر وہ اپنا ماضی ڈھونڈنے کے لیے پاکستان کے راستے واپس افغانستان بھی جاتا ہے۔ بچپن کے دوست کی اولاد کو طالبان کے قبضے سے بچانے کی عملی کوششیں کرتا ہے۔ اس طرح کئی کرداروں سے مل کر تخلیق کردہ اس کہانی کودلچسپ انداز میں لکھا گیا ہے، جو پڑھنے لائق ہے۔
ناول پر امریکا میں ایک اسٹیج ڈراما تیار کیا گیا جبکہ ہالی وو ڈمیں فلم بھی بنی۔ فلم کا اسکرین پلے معروف امریکی اسکرپٹ رائٹر’’ڈیوڈ بینیوف‘‘ نے لکھا، جو ’’گیم آف تھرونز‘‘ کے سلسلے کی تمام فلموں کے اسکرپٹس بھی لکھ چکے ہیں۔ 2007 کو دسمبر کے مہینے میں یہ فلم ریلیز ہوئی۔ اس کے ہدایت کار ’’مارک فوسٹر‘‘ ہیں، جو جرمن نژاد سوئس فلمساز ہیں۔
فلم کی عکس بندی کے لیے چین کے اکثر علاقوںکا انتخاب کیا گیا، جن میں کاشغر، بیجنگ وغیرہ ہیں۔ افغانستان میں بھی فلم کی عکس بندی ہوئی۔ اس کی ریلیز کے بعد کئی تنازعات نے بھی جنم لیا، جن کی وجہ سے فلم میں کام کرنے والے کئی افغان اداکاروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، سرفہرست مرکزی کردار نبھانے والے افغانی اداکار’’زکریہ ابراہیمی‘‘ اور’’احمد خان محمود زادہ‘‘تھے۔
فلم میں دری زبان بولی گئی، جو فارسی زبان کی افغان شکل ہے، جس میں لب و لہجہ ایرانی فارسی سے مختلف ہوتا ہے۔ انگریزی اور اردو زبان کا استعمال بھی فلم کے اندر متعدد مناظر میں ہوا۔ مرکزی کرداروں میں مصری نژاد برطانوی اداکار خالد عبداللہ اور جرمن اداکارہ اتاوسالیونی سمیت دیگر فنکاروں نے اس فلم کے لیے دری زبان بھی سیکھی۔ اس کو آسکر ایوارڈز سمیت کئی بڑے فلمی اعزازات کے لیے نامزد کیا گیا، جس میں سے کچھ ایوارڈز اپنے نام بھی کیے، لیکن سب سے زیادہ اہم اعزاز باکس آفس پر کامیاب ہونے کا ہے۔
خالد حسینی کایہ ناول اور اس پر بنائی گئی فلم میں جس افغانستان کو بیان کیا گیا ہے، وہ جنگ کے ہاتھوں ایک اجڑتا ہوا افغانستان ہے، جس نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا، انہیں دُکھ اور مصائب دیے۔ پوری دنیا میں دہشت گردی کی علامت بننے والے اس ملک کی اداسی کو کسی نے محسوس نہ کیا تھا، یہ ناول اُس اداسی اور اذیت کو بیان کرتا ہے، جس میں اُن کے اجڑے ہوئے خواب، بچھڑے ہوئے رشتے اور تاریکیوں کے گھمبیر سائے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی حساسیت اس ناول کی سب سے بڑی خوبی تھی، جس کو دنیا بھر میں حساس لوگوں نے پڑھا اور پسند کیا۔