کہیے کیا تیاری ہے اتوار کی۔
بچوں کے سوالات اب کے بھی بہت تیز ہوں گے۔ آج غاصب و جابر بھارت کا یومِ جمہوریہ بھی ہے۔ کیسی جمہوریت؟ مقبوضہ کشمیر پر جبر و استبداد کی رات طویل ہوتی جا رہی ہے۔ پورا ملک سراپا احتجاج ہے۔ دیکھیں بھارت کے حقیقی جمہوریت پسند آج یومِ جمہوریہ کیسے مناتے ہیں۔
پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ آپ اخبار کس وقت پڑھتے ہیں؟ بچوں بچیوں سے ملنے سے پہلے یا بعد میں؟
ہر جگہ ہماری تحریکِ اتوار کا چرچا ہو رہا ہے۔ میں اللّٰہ تعالیٰ کے حضور عجز سے سر جھکائے ہوئے ہوں کہ پاکستان کے والدین اور سمندر پار پاکستانی بھی اولادوں سے ملنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ مڈل کلاس یا غریب مختلف اسباب کی بنا پر اپنی اولاد کو نظر انداز کرتے ہیں حالانکہ یہ ان کی فصل ہے۔ فصل کی نگہداشت کسان سے سیکھیں۔ کس طرح منہ اندھیرے سے شام ڈھلے تک فکرمند رہتا ہے۔ جانوروں سے بچاتا ہے۔ آفاتِ ناگہانی سے تحفظ کے لئے تدابیر کرتا ہے۔ بچوں کی پرورش ایک تو اس لئے کہ آپ ان کے ماں باپ ہیں، دوسرے اس لئے کہ یہ آپ کی سماجی اور قومی ذمہ داری ہے۔ آپ صرف اپنے بیٹوں بیٹیوں کی نہیں اپنی ملّت کے مستقبل کی تربیت کر رہے ہیں۔ آج بات کرنا چاہتا ہوں ترجیحات کے تعین کی۔ اپنے گھر دفتر میں بھی آپ ہر ماہ، ہر ہفتے کے آغاز میں آئندہ کی ترجیحات مرتب کرتے ہیں۔ کیا پہلے کرنا ہے، کیا بعد میں۔
اسی طرح قوم کی ترجیحات کا بھی تعین ہوتا ہے۔ قوم کے بڑے یہ ترتیب دیتے ہیں مگر آپ تو ڈیووس میں گھوم رہے ہیں۔ ملنا ملانا کچھ نہیں ہے۔ یہ امیر قوموں کی برفیلی پکنک ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کی اٹکھیلیاں ہیں۔ آپ کے ہاں جب اندرونی کشمکش ہو، انتشار ہو، سماجی جرائم بڑھ رہے ہوں تو یہاں سرمایہ لگانے کون آئے گا۔ صنعتی علاقوں میں زمینوں پر مافیا قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ کون فیکٹری لگانے آئے گا۔ یہ آپ کا سیر سپاٹا قوم کو کروڑوں روپے میں پڑتا ہے۔ یہاں کشمیر کی بات کرنے سے کشمیریوں پر لگا کرفیو تو ختم نہیں ہو سکتا۔ ڈیووس پر ترجیح ریکوڈک کو ملنا چاہئے تھی۔ جہاں ہمارا سونا، تانبا انتظار کر رہا ہے۔ روزانہ لاکھوں ڈالر کی آمدن ہو سکتی ہے۔ اللہ نے یہ خزانہ ہمیں عنایت کر رکھا ہے۔ کاش وزیراعظم، حفیظ شیخ، اسد عمر، رزاق دائود ریکوڈک یا گوادر میں بیٹھے ہوتے۔ یہاں وہ جائزہ لیتے کہ گوادر کی بندرگاہ پر جتنے تجارتی جہاز لنگر انداز ہو سکتے ہیں اب تک کیوں نہیں ہو رہے ہیں۔ ریکوڈک سے سونا، تانبا نکالنے میں کیا رکاوٹیں ہیں۔ ہم اجنبی سرزمینوں میں خوشحالی ڈھونڈنے نکلے ہیں۔ کروڑوں ڈالر سفر میں خرچ کر دیتے ہیں۔ نتیجہ صفر رہتا ہے۔
اقتدار کی مسند آپ کو مل جائے تو کتنے نئے نئے چہرے آپ کے آس پاس دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ایک صاحب کہہ رہے ہیں کہ وہ لیڈر جو عاقلوں کی نہیں سنتے، بالآخر ایسے لوگوں میں گھر جاتے ہیں جن کے پاس ان کی مدد کے لئے کوئی اہلیت نہیں ہوتی۔ ان اجنبی چہروں کو پیرا شوٹر کہا جاتا ہے۔ ہم امریکی محکمہ خارجہ کی دعوت پر نائن الیون کے بعد ایک دورے پر ہیں۔ بوسٹن میں ایک نیمن فائونڈیشن کے سربراہ بوب جائلز سے ہماری میٹنگ ہو رہی ہے۔ یہ ادارہ میڈیا کے فروغ کے لئے وظائف دیتا ہے۔ انہوں نے امریکی میڈیا کی بےخبری کا بڑا اہم سبب بتایا کہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے اور کافی عرصے بعد تک اکثر ملکوں میں امریکہ کے بڑے اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی کے مستقل دفاتر ہوتے تھے۔ جہاں ان کا اسٹاف باقاعدہ متعین ہوتا تھا۔ وہ ان علاقوں کے سیاسی، معاشی اتار چڑھائو سے لمحہ لمحہ واقف رہتا تھا۔ جب وہاں کوئی بحران آتا تھا تو ان کی رپورٹنگ میں وہ تمام مشاہدات شامل ہوتے تھے جو ایک عرصے سے دیکھ رہے ہوتے تھے۔ لیکن اب یہ دفاتر زیادہ تر ختم کر دیے گئے ہیں۔ اب عین وقت پر نمائندے اترتے ہیں۔ انہوں نے ان کے لئے پیرا شوٹر کا لفظ استعمال کیا کہ انہیں حالات سے پوری طرح واقفیت نہیں ہوتی۔ اس لئے ان کی رپورٹنگ نامکمل اور ناقص ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ امریکی عوام تک حقیقی حالات نہیں پہنچتے۔
یہ پیرا شوٹر اب ہمارے ہاں بھی میڈیا میں اتر چکے ہیں۔ زیادہ تر اتارے جا چکے ہیں۔ اتارے جانے والوں کے لئے اصطلاح پیرا ٹروپرز کی استعمال ہوتی ہے۔ میڈیا میں ہی نہیں، سیاسی میدان میں۔ بزنس کے شعبے میں، ہر جگہ پیرا ٹروپرز غالب آ رہے ہیں۔ پیرا ٹروپرز ٹھیکے بھی لے رہے ہوتے ہیں۔ ٹھیکیدار اب سرمایہ داروں، جاگیرداروں سے زیادہ امیر اور طاقتور ہیں۔ ان کا بھی اپنے شہر، اپنی دھرتی سے تعلق ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ ان کی اپنی ترجیحات ہیں جس کا اس سرزمین سے، مملکت سے کوئی ربط نہیں ہوتا۔ میں نے ستمبر 2019میں بھی لکھا تھا کہ عمران خان ترجیحات کا تعین نہیں کر پا رہے ہیں۔ یونیورسٹیاں اور کاروباری حلقے ترجیحات کا تعین کریں اور حکومت پر دبائو ڈالیں۔ اصل ترجیحات زمین سے لگن والے ہی مرتب کر سکتے ہیں۔ پیرا ٹروپرز تو مشکل وقت میں پرواز کر جاتے ہیں۔ جو لوگ انہیں اتارتے ہیں وہ انہیں واپس بھی بلا لیتے ہیں۔آج کی ترجیحات ہر صورت میں اقتصادی ہیں۔ اس وقت اگر عوام مہنگائی سے پریشان ہیں تو یہ اقتصادی ترجیحات کے عدم تعین کا نتیجہ ہے۔ ناکامی‘ کامیابی ترجیحات کے درست یا غلط تعین پر منحصر ہوتی ہے۔ ترجیحات کے تعین سے ہی لیڈر کی صلاحیت کا پتا چلتا ہے۔ ہمارے عام شہری حکمرانوں سے زیادہ بصیرت رکھتے ہیں۔ وہ انتہائی بحرانی حالات میں زندہ رہنے کے لئے خود ہی کچھ ایجاد کرتے ہیں۔ کوئی راستہ تلاش کرتے ہیں۔ ترجیحات کی ایک ترتیب ہوتی ہے۔ وقتی ابال نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ڈیم، ڈیم کا شور تھا۔ اب کسی کو وہ یاد بھی نہیں ہے۔ اسی طرح طلبہ یونینوں کا ابال آیا، اب کہیں ذکر نہیں ہے۔
دیکھیں یہ ساری باتیں ہم اپنے بچوں کے سامنے کر رہے ہیں۔ ملک ان کو سنبھالنا ہے۔ وہ ترجیحات مرتب کریں۔ روڈ میپ بنائیں۔ کب کیا کرنا ہے۔ 2020بہت ہی اہم اور فیصلہ کن سال ہے۔ اسے ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ ہمارا میڈیا لمحۂ موجود کو اچھالنے میں اتنا محو ہو جاتا ہے کہ اسے خبر ہی نہیں ہوتی کہ لمحہ تو کب کا گزر چکا۔