• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی فلم میں 25 سال قبل کورونا جیسے وائرس کی نشاندہی کردی گئی تھی

امریکی فلم میں 25 سال قبل کورونا جیسے وائرس کی نشاندہی کردی گئی تھی


چین میں پھیلے مہلک کورونا وائرس کی نشاندہی ایک امریکی فلم میں 1995 میں کردی گئی تھی جو جانور سے انسانوں میں منتقل ہوا۔

اس وقت چین میں 180 افراد کورونا وائرس کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔

اس وائرس سے ہزاروں افراد متاثر ہیں جبکہ چین میں موجود غیر ملکی اپنے اپنے وطن واپس جانے کے لیے بے چین ہیں۔

کورونا وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے نزلہ زکام جیسی بیماری لاحق ہوسکتی ہے۔

بروقت اور مناسب علاج نہ ملنے کی وجہ سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے، تاہم ایسے ہی جراثیموں کے بارے میں بین الاقوامی فلم انڈسٹریز میں فلمیں بنائی جاتی رہتی ہیں۔

امریکا میں بھی اس کورونا وائرس جیسے جراثیم کے بارے میں 1995 میں ایک فلم بنائی گئی جس کا نام ’آؤٹ بریک‘ تھا۔

اس فلم کے مناظر میں دکھایا گیا ہے کہ ایک جنگلی بندر کو پکڑنے کی کوشش میں ایک شخص کو اس جانور کے پنجے مارنے کی وجہ سے وائرس منتقل ہوجاتا ہے۔

یہ وائرس آہستہ آہستہ دیگر لوگوں میں پھیلتا ہوا پورے ملک میں پھیلنے لگتا ہے۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ یہ فلم خود بھی ایک غیر افسانوی کتاب پر بنائی گئی ہے۔

دی ہاٹ زون (The Hot Zone) نامی یہ کتاب 1994 میں شائع ہوئی تھی جو 1992 میں شائع امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے ایک آرٹیکل کی بنیاد پر رچرڈ پرسٹن نے لکھی تھی۔

ایسی ہی ایک اور فلم ’کانٹیجن‘ 2011 میں بھی ریلیز ہوئی تھی جس میں وائرسز کو بہت تیزی کے ساتھ انسانوں میں پھیلتا ہوا دکھایا گیا تھا۔

مذکورہ دونوں فلموں میں وائرس کا شکار ہونے والوں کو چلتے چلتے گرتا ہوا دکھایا گیا ہے جیسا کہ آج سامنے آنے والے کورونا وائرس کے شکار افراد چلتے چلتے گر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ ماہرین بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ آج چین سے امریکا تک پھیلنے والا یہ وائرس بھی جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔

دوسری جانب کورونا کے پھیلتے ہی کنٹیجن اور آؤٹ بریک نامی فلمیں دوبارہ مقبول ہوگئیں اور چارٹس میں پھر جگہ بنالی۔

تازہ ترین