• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے مہذب ممالک میں جیلیں جرائم پیشہ افراد کو عدالتوں کی جانب سے دی جانے والی سزائوں کی مدت کو گزارنے کے علاوہ اصلاح خانے تصورکی جاتی ہیں جہاں قیدیوں کو صاف ستھرا ماحول فراہم کرکےاُنہیں جرم سے نفرت اور قانون اور امن پسند شہری بنانے کے لئے پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں ۔ اکثر قیدی جیلوں سے سزا بھگت کر اس طرح نکلتے ہیں کہ وہ جرم کی دنیا میں واپس جانے کے بجائے معاشرے کے لئےمفید اور اپنی نسلوں کے لئے اچھی مثال اور سوومند ثابت ہوتے ہیں ۔

تاہم اس کے برعکس پاکستان میں جیلوں کا تصورربدترین عقوبت خانےکا ہے جہاں جیل کے عملہ کا قیدیوں کے ساتھ سلوک تحقیر آمیز اور قابل نفرت ہوتا ہے ۔ اکثر جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ مار پیٹ اور خوراک اور علاج میں جانوروں سے بھی بدترسلوک کیا جاتا ہے ۔ ہماری جیلیں اصلاح خانے کی بجائے جرائم کر نرسریاں ثابت ہوتی ہیں اور وہاں معمولی جرائم یا الزامات پر لائے جانے والے قیدی جیل سے رہائیکے بعد ڈاکو، دہشت گرد اور قاتل بن کرنکلتے ہیں جو معاشرے کے لیے ناسور بن جاتے ہیں۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے قیدی جن میں منشیات کے نامی گرامی اسمگلر اور جرائم پیشہ عناصرکے علاوہ سیاسی قیدی بھی شامل ہوتے ہیںجیل خانہ جات اور محکمہ داخلہ سندھ کے کارپردازوں پر اثر و رسوخ اور بھاری رشوت کے عوض ایسی سہولتیں اور آسائشیںحاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں جوکہ انہیںگھروں پر بھی میسر نہیں ہوتیں ۔ ایسے قیدی دانت کی معمولی تکلیف پر مہینوں نجی اسپتالوں کےپرائیوٹ کمروں میں عیش کرتے ہیں۔ 

نواب شاہ میں منشیات کے مقدمہ 9C کا قیدی ،جس میں عمر قید اور پھانسی کی سزا ہوتی ہے، محکمہ داخلہ کی جانب سے پیرول ملنے پرمبینہ طورپر ہر عید کو اپنے گھر آتا ہے جب کہ پولیس اہلکار عید کے تین دن اپنے بچوں کے ساتھ عید کی خوشیاں منانے کے بجائے اس کے گھر پر پہرہ دیتے ہوئے گزارتے ہیں۔حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ایک اہلکار نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ جیلوں میں جگہ کی تنگی اور ناکافی سہولتوں سے جہاں قیدی پرصعوبت زندگی گزارتے ہیں وہیں جیل کا عملہ بھی بے زار نظر آتا ہے، جس کے مناظر ڈسٹرکٹ جیل ضلع شہید بے نظیر آباد( نواب شاہ) میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

اس جیل میں بھی سندھ کی دیگر جیلوں کی طرح گنجائش سے زائد قیدی رکھے گئے ہیں، جنہیں گونا گوں مسائل کا سامنا ہے۔ قیدیوں کوسب سے بڑا مسئلہ معتدی بیماریوں خصوصا امراض جلد تپ دق کھانسی، بخار کے علاوہ پیٹ کی بیماریوں میں بھی مبتلا ہیں جنہیں جیل کے اسپتال میں علاج معالجے کی سہولتوں کے حصول میں بھی دشواریوں کا سامنا رہتا ہے۔

اس سلسلہ میں حکومت سندھ کی جانب سے جیلوں میں اصلاح احوال کے لئے ضلعی سطح پر بنائی گئی کمیٹیوں میں سے نواب شاہ کی کمیٹی کے ارکان جن میں چوہدری عبدالقیوم سابق تعلقہ ناظم میونسپل کمیٹی اور تاجراتحاد کے رہنما ضیاء الحق اور امداد شاہ ایڈوکیٹ نے دیگر ممبران کے ہمراہ ڈسٹرکٹ جیل نواب شاہ کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ جیل میں گنجائش سے زائد قیدیوں کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ جیل میں سترقیدی ایسے تھے جن کی عمریں اٹھارہ اور بیس سال کے درمیان تھیں اور بڑی عمر کے قیدیوں کے ساتھ ایک ہی بیرک میں بند ہونے کی وجہ سے وہ پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ گو کہ کمیٹی ممبران کو ان قیدیوں کی طرف سے کوئی شکایت نہیں کی گئی تاہم بقول ضلعی کمیٹی کے ان کم عمر قیدیوں کے چہروں پر شکایتوں کے انبار نظر آ رہے تھے۔ اس بارے میں ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ اکثر قیدی اس بات پر شاکی تھے کہ ان سے برآمد تو مین پوری اور گٹکا ہوا تھا لیکن سزا وہ منشیات ایکٹ کے تحت لگائی جانے والی دفعات کی بھگت رہے ہیں۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حالیہ چند ماہ سے ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی بڑی تعداد سامنے آنے کے دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ اکثر جیلوں میں جن میں ڈسٹرکٹ جیل نواب شاہ بھی شامل ہے ایڈز کے مریض سامنے آئے ہیں ۔ اس بارے میں جیل حکام کا کہنا ہےکہ ایڈزکے قیدی یہ مرض ساتھ لے کرجیل آئے تھے ، انہیں دوران قیدیہ مرض لاحق نہیں ہوا ہے ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈسٹرکٹ جیل نواب شاہ سمیت سندھ کی تمام جیلوں کی حالت زار کو بہتر بنانا اور ان میں قیدیوں کے لئے اصلاحی پروگرام کا انعقادنا گزیر ہو چکا ہے اور اگر ان اصلاحی پروگراموں کو مذہبی اسکالروں کے ذریعہ شروع کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہماری جیلوں میں سے رہائی پانے والے معاشرے کے لئے کارآمدشہری نہ بن سکیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین