• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امیر حمزہ محمد یعقوب

مصباح الحق کو کپتانی کے دور میں دفاعی کھلاڑی ہونے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا، اب ہیڈکوچ، چیف سلیکٹر کی وجہ سےتنقیدوں کا رخ ان کی طرف ہے۔ نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد مصباح الحق کا اولین امتحان سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز میں تھا جس میں شکست ان کی نیندیں اڑانے کے لیے کافی تھی نمبر ون ٹیم کااس طرح ہوم گراؤنڈز پر سری لنکا کی نئی ٹیم کے خلاف ہار جانا باعث تشویش تھا۔شکستوں کا سارا نزلہ سرفراز احمد پرگرا۔ جنہیں نہ صرف تینوں فارمیٹ کی کپتانی سے محروم ہونا پڑا بلکہ بطور پلیئر بھی وہ ٹیم میں جگہ نہ بناسکے۔ 

اگلی آزمائش آسٹریلیا کا مشکل ٹور تھا جہاں جیت کے لیے تجربہ کار پلیئرز کی ضرورت تھی مگر اس دورے کے لیے نوجوان پلیئرز کو چانس دیا گیا۔ یہاں بھی نتیجہ مختلف نہ رہا ،سٹریلیاکے مشکل دورے کے بعد پاکستان کو سری لنکا کی میزبانی کا موقع ملا،جس میں محمد حفیظ اورشعیب ملک کی واپسی کے بعد مصباح الحق دوبارہ تنقید کی زد میں ہیں۔چیف سلیکٹر کے طور پر مصباح الحق کے فیصلوں کو دیکھا جائے تو اس میں تسلسل کا فقدان نظرآتا ہے ۔ مصباح الحق ابھی تک اس کشمکش میں مبتلا ہیں کہ سینئرز یا جونیئرز کون ٹیم کے لیے سودمندثابت ہوسکتے ہیں۔ جس طرح اپنی کپتانی کے دور میں وہ دلیرانہ فیصلوں سے گھبراتے تھے۔ 

یہی گھبراہٹ بطور چیف سلیکٹر بھی ان پرطاری ہے۔ ورلڈکپ اب زیادہ دور نہیں ہے۔ مگر ہم ابھی تک موزوں کمبین نہیں بناسکے۔ سلیکشن کا کوئی واضح پلان نہیں ہے۔ کیا محمدعامر، وہاب ریاض ورلڈکپ کھیل پائیں گے۔ یا پھر ہم نوجوان پلیئرز کے ساتھ ہی ورلڈ کپ کھیلں گے؟ کیا ان نوجوان پلیئرز میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ورلڈکپ جیسے ایونٹ کاپریشر جھیل پائیں گے ۔ سینئرز یا نوجوان پلیئرز آخر یہ فیصلہ کب ہوگا ؟

تازہ ترین
تازہ ترین