• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیوی نے لاڈ بھرے انداز میں شوہر سے کہا ’’آپ کو میری خوبصورتی اچھی لگتی ہے یا عقلمندی‘‘ شوہر کا جواب تھا ’’جانو مجھے تمہاری یہ مذاق کرنے کی عادت بہت اچھی لگتی ہے‘‘۔

شوہر میکے گئی بیوی کی تصویر دیوار پر لگا کر اس پر چھری سے نشانے لگا رہا تھا اور تمام نشانے missہو رہے تھے، اسی دوران بیوی کا فون آگیا، بیوی نے پوچھا ’’کیا کر رہے ہو‘‘ شوہر بولا ’’mising you‘‘۔

ساس بولی، آج میری بہو رانی خاموش کیوں بیٹھی ہے، پاس بیٹھا خاوند بولا ’’کچھ نہیں بس لائٹ گئی ہوئی تھی، اس نے لپ اسٹک مانگی، میں نے غلطی سے ایلفی پکڑا دی، اب پتا نہیں کیوں کچھ بول نہیں رہی‘‘۔

کہتے ہیں بیوی کی خوبیاں تلاش کرنا اتنا ہی مشکل جتنا اپنی خامیاں تلاش کرنا، کہا یہ بھی جائے ساری رات بیوی کو روتے بچے پر اتنا غصہ نہیں آتا، جتنا آرام سے سوتے شوہر کو دیکھ کر آتا ہے۔ میرا دوست (ف) کہے، میاں بیوی کو محبت میں اضافے کیلئے ایک دوسرے کی تعریف کرنی چاہئے مگر اس دوران اپنی ہنسی پر قابو رکھیں۔

اسی دوست کا تجربہ‘ محبت، زن مریدی، سرکاری نوکری تینوں ایک جیسی، بندہ روتا بھی رہتا ہے اور کرتا بھی رہتا ہے۔ کسی سیانے سے پوچھا گیا، وائف، بیوی، بیگم میں کیا فرق ہے، سیانا بولا ’’کچھ فرق نہیں، یہ بھی انڈیا، بھارت، ہندوستان کی طرح ایک مصیبت کے تین نام۔

ایک سردار اپنے دوست سے بولا ’’جدوں میری نویں نویں شادی ہوئی سی، مینوں تیری بھابھی اینی چنگی لگدی سی کہ دل کردا سی اینوں کھا جاواں‘‘، دوست بولا ’’تے ہن؟‘‘ سردار، ہن سوچناں آں جے کھا ای جاندا تے چنگا سی، پچھلے دنوں اُس دوست سے ملاقات ہوئی جس کی پچھلے سال شادی ہوئی، حال احوال پوچھا، ظالم نے چار فقروں میں ہی سب کچھ بیان کردیا۔

کہنے لگا، پرانے گانے سنوں تو بیگم پوچھتی ہے ’’کس کی یاد ستا رہی ہے؟‘‘ نئے گانے سنوں تو بیگم کہتی ہے ’’تمہیں بڑی جوانی چڑھی ہوئی ہے‘‘ ایک دن صوفیانہ کلام سنتے دیکھ کر بولی ’’لگتا ہے جناب کو کہیں تازہ تازہ عشق ہوا ہے‘‘، جیسے خود کشی کرنے میں ایک ہی خرابی کہ بندہ مر جاتا ہے۔

ایسے ہی شادی کرنے میں ایک ہی خرابی کہ بندہ خاوند بن جاتا ہے، ایک شخص کا انتقال ہوا تو اس کا دوست اس کی بیوی کے پاس آکر بولا ’’کیا میں اپنے مرحوم دوست کی جگہ لے سکتا ہوں‘‘ بیوی بولی ’’مجھے تو کوئی اعتراض نہیں، بس آپ گورکن سے پوچھ لیں، خاوند کو اردو میں عورت کا مجازی خدا، پنجابی میں عورت کا بندا کہتے ہیں۔

سب خاوند ایک جیسے ہی ہوتے ہیں، بس شکلیں مختلف، شکلیں بھی اس لئے مختلف تاکہ ہر کسی کو اپنا اپنا خاوند پہچاننے میں آسانی ہو، ڈاکٹر یونس بٹ کا کہنا ’’شادی کبھی نہ مکمل ہونے والی فلم مگر اس فلم کا سوچ کر مجھے وہ سردار یاد آجائے، جو اپنے دوست کے ساتھ فلم دیکھ رہا تھا۔

فلم میں اچانک شیر نے اسکرین کی طرف دوڑ لگائی تو سردار جلدی سے اُٹھ کر باہر کی طرف بھاگا، سردار کے دوست نے کہا ’’ بیوقوف، کہاں بھاگے جارہے، یہ تو صرف فلم ہے‘‘۔ سردار لمحہ بھر کیلئے رُک کر بولا ’’مجھے بھی پتا ہے کہ یہ فلم ہے مگر شیر کو تو نہیں پتا، وہ تو جانور ہے‘‘۔

صاحبو! اپنے ہاں چار سو بیوی راج، جیسے یہاں گھی کے ڈبے سے کار تو نکل سکتی ہے مگر اصلی گھی نہیں، ویسے ہی شادی کے بعد بیوی وفادار تو نکل سکتی ہے مگر تابعدار نہیں۔

ایک اچھا بھلا ’من مرید‘ بندہ شادی ہوتے ہی ’زن مرید‘ ہو جائے، اسی لئے تو کہا جائے کہ ملک کی تقدیر تو غیرشادی شدہ ہی بدل سکتے ہیں، شادی شدہ تو اپنی مرضی سے ٹی وی چینل بھی نہیں بدل سکتے۔

اپنے ہاں بیویاں، خاوندوں پر یوں نظر رکھیں کہ وہ شیخ یاد آجائے جس نے اپنے دوست کو دعوت پر گھر بلایا ہوا تھا، کھانے کے بعد میٹھا کھاتے ہوئے شیخ صاحب نے اپنے دوست سے کہا ’’ایک گلاب جامن اور لے لو‘‘ دوست بولا ’’شکریہ میں پہلے ہی چار کھا چکا‘‘ یہ سن کر شیخ صاحب نے کہا ’’کھائے تو تم نے سات ہیں مگر یہاں گن کون رہا ہے، ایک اور کھالو‘‘۔

صاحبو! شادی بجلی کی تاروں کی طرح تار صحیح جگہ جڑ جائے تو گھر روشن ورنہ آپ خود سمجھدار ہیں، یہ بھی سچ کہ گھر بیوی کے بنا سُونا سُونا، یہ بھی سچ بیوی گھر ہو تو خاوند سُونا سُونا، عقلمند لوگ ہمیشہ بیوی کے دماغ سے سوچیں، بیوقوف اپنا دماغ لڑائیں اور قدم قدم پر خسارہ پائیں۔

جیسے ایک بیوی نے کچن سے آواز لگائی، ذرا اخبار تو پکڑانا، خاوند بولا، تم بھی کتنی بیک ورڈ ہو، اخبار مانگ رہی ہو، یہ لو میرا آئی پیڈ، بیوی نے آئی پیڈ لیا اور آئی پیڈ سے کچن کے فرش پر بھاگتے تین کاکروچ مار ڈالے، آخری اطلاعات تک خاوند بےہوش تھا۔

اس کہانی کا نتیجہ یہی، بیوی جو کہے وہی کرو، اپنی عقل، اپنی چالاکیاں اپنے دفتر تک ہی محدود رکھو، میرا دوست (ف) کہے، شادی کے بعد اکثر خاوندوں کی حالت ایسی کہ ایک بیوی نے خاوند سے پوچھا ’’جانو خوش نصیب کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں، خاوند جھٹ سے بولا ’’Unmarried‘‘۔

کہا جائے عاشق، شاعر، خاوند، پاگل چاروں قابلِ رحم، چاروں کے اپنے اپنے مسائل مگر چاروں دکھی، یہ علیحدہ بات کہ سیانے کہیں، شاعروں کو ضرور شادی کرنی چاہئے، اگر بیوی اچھی مل گئی تو زندگی اچھی ہو جائے گی، اگر بیوی اچھی نہ ملی تو شاعری اچھی ہو جائے گی۔

شادی وہ عمل جس میں دو لوگ اس طرح مل کر رہتے ہیں کہ ایک دوسرے کو رہنے نہیں دیتے، اپنے ہاں لوگ اس لیے شادی کرتے ہیں کہ سکون سے رہیں اور جو شادی نہیں کرتے وہ بھی اسی لیے نہیں کرتے کہ سکون سے رہیں اور دونوں سکون سے کوسوں دور۔

صاحبو، قصہ مختصر، بیوی بس بیوی، منطق، عقل سے آگے کی مخلوق، جیسے ٹی وی پر گھوڑوں کی ریس دیکھتے خاوند سے بیوی نے پوچھا، اول انعام کس کو ملے گا‘‘ خاوند بیزاری سے بولا ’’یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات، اول انعام ملے گا سب سے آگے والے کو‘‘ بیوی کا اگلا سوال تھا، تو پھر یہ پیچھے والے کیوں دوڑ رہے ہیں، اب آپ ہی بتائیے، خاوند بےچارہ اس سوال کا کیا جواب دے۔

تازہ ترین