• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم سیکرٹریٹ ،عمران خان کے دوستوں سے خالی ہو گیا۔میڈیا ایڈوائزر افتخار درانی کو سبکدوش کر دیا گیا ہے ۔ یوسف بیگ مرزا مستعفی ہونے کے بعد اپنے گھر جا چکے ہیں ۔

طاہر اے خان کو اپنے ذاتی چینل پرنیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کے خلاف غیر اخلاقی خبر نشر کرنے کی وجہ سے فارغ کردیا گیا تھا۔ندیم افضل چن وزیر اعظم کے ترجمان ہوتےہوئے بھی ترجمانی کےلئے تیار نہیں اور اب آخری آدمی نعیم الحق بھی اسلام آباد سے کراچی شفٹ کر دئیے گئے اس پر ستم یہ ہواکہ شہباز گل کے آرڈرزاسپیشل اسسٹنٹ کے طور پر کردئیے گئے۔

شاید ابھی عمل درآمد ہونا باقی ہے ۔نعیم الحق کی ٹیم بھی اُسی کے حوالے کر دی گئی ہے ۔اللہ تعالیٰ عمران خان اور پی ٹی آئی کے حال پر رحم فرمائے۔

دوستی کا تعلق بھی عجیب تعلق ہے۔دو دوست ساری زندگی اکٹھے رہتے ہیں ۔ایک دوسرے کےلئے جان قربان کرنے پر تیار ہوتے ہیں مگر جب کسی دوست کوکوئی خوفناک حادثہ پیش آجائے تو دوسرا دوست فوراً اس کے عزیزوں ، رشتہ داروں سے رابطہ کرتاہے کہ آئیں اوراپنے بھائی یا باپ کی میت لے جائیں۔

اللہ نعیم الحق کی زندگی دراز کرے مگر جیسے ہی ڈاکٹرنے اُنکی بیماری کو خطرناک قراردیاتو فوری طور پر کراچی سے ان کے بیٹے کو بلایا گیاکہ اب زندگی کے جو دن باقی رہ گئے ہیں اُن میں آپ اپنے والد محترم کی خدمت کریں۔اُن کی آنکھوں کے سامنے رہیں ۔

بیچارےنعیم الحق جس بیماری کا شکار ہیں ۔اُس میں ہمہ وقت توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عمران خان اسی علالت کے سبب انہیں منصب سے الگ کرنا نہیں چاہتے ۔وہ بھی بیماری کے عالم میں کام کرتے رہے۔کینسر انہیں اندر سےچاٹ چکا تھا مگر وہ صاف ستھرے کپڑے پہن کر ، چہرے پرمسکان سجا کرہر میٹنگ اٹینڈ کرتے رہے۔

مخالفین کی ٹویٹس کا جواب دیتے رہے ۔ اب ان کےلئے لوگوں کو پہچاننا بھی مشکل ہو گیا تھا۔چلنے پھرنےکے تو پہلےہی قابل نہیں رہے تھے ۔ اوردوستوں کےلئے بھی اب ممکن نہیں رہاتھا کہ ان کی ویل چیئر دھکیلتے پھریں۔

سو دو دن پہلےاسلام آباد کے راستوں نے یہ دلدوزمنظر دیکھا کہ ان کا بیٹا امان الحق ، کراچی سے اسلام آباد آیااور اپنے باپ کی ویل چیئر دھکیلتا ہواواپس کراچی روانہ ہو گیا۔جہاں ان کی بیٹی ’’ایمانے ‘‘انہیں ریسو کیا ۔

بہت کم دوست انہیں چھوڑنےایئرپورٹ تک ساتھ گئے ۔بس ساتھ قاسم خان سوری اور گل حمید نیازی تھے۔گل حمید نیازی روتے ہوئےاُس وقت تک جہاز کو اڑتا دیکھتے رہے۔ جب تک وہ نظر آتا رہا۔

ا للہ نہ کرے ،یہ اُن کا اسلام آباد سے کراچی تک کا سفر آخری ہو مگرڈاکٹرز بڑے ظالم ہیں ۔وہ باتیں بھی بتا دیتے ہیں جو بتانے والی نہیں ہوتیں ۔

وہ وزیر اعظم کےمعاون خصوصی برائے سیاسی امور ہیں۔ ان کی زندگی کا سفر نیشنل بینک آف پاکستان کی ملازمت سے شروع ہوا ۔ آٹھ سال امریکہ میں نیشنل بینک کی شاخ میں کام کرتے رہے۔ پھریوکے میں نیشنل بینک کے منیجر بن کر شفٹ ہو گئے ۔

وہیں ان کی عمران خان سے پہلی ملاقات ہوئی جو دوستی میں بدل گئی ۔وہ عمران خان کےفنانشل ایڈوائزر بن گئے اور مالی معاملات دیکھنے لگے۔ یوکے سےواپس کراچی آئے تو میدانِ سیاست میں قدم رکھا ۔تحریک استقلال میں شامل ہوئے۔

اِسی پارٹی کے ٹکٹ پر کراچی سے ایم این اے کا الیکشن لڑا۔جب تحریک انصاف بنائی گئی تو وہ اس میں شامل ہوگئے ۔عمران خان نے انہیں صوبہ سندھ کا صدر بنا دیا۔انہوں نے عمران خان کے بھروسے کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائی تھی ۔سودوہزار بارہ میں عمران خان نے انہیں کراچی سے اپنے پاس اسلام آباد بلا لیا۔

وہ وہیں بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ کے ایک کمرے میں رہنےلگے ۔چونکہ شریک ِ حیات فوت ہو چکی تھیں اس لئے باقی حیات انہوں نے تحریک انصاف کےلئے وقف کردی ۔وہ انتہائی ایماندار آدمی ہیں۔ان کے دامن پر مالی کرپشن کا کوئی داغ نہیں ۔باقی داغ تو لگتے ہی رہتے ہیں ۔ بقول فراز

داغ دامن کے ہوں دل کے ہوں کہ چہرے کے فرازؔ

کچھ نشاں عمر کی رفتار سے لگ جاتے ہیں

بہت دوست دار آدمی ہیں ۔شہباز گل جب لاہور میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے ساتھ اختلاف کے بعد اسلام آباد پہنچےتوکئی مہینے مسلسل نعیم الحق کے دفتر کے صوفے پر براجمان رہے ۔

ایسے جیسے کسی دیہات کے اسٹیشن پر کوئی مسافر نئی گاڑی کے انتظار میں بینچ پربیٹھا ہوتا ہے مگر اُن کے ماتھے پر شکن نہیں آئی ۔یہ الگ بات ہے کہ جب صوفہ ٹوٹنے والا ہو اتو صاحب ِدفتر کو رحم آ گیا ۔عمران خان کو اپنے گھر بلا کر شہباز گل سے ملوا دیا گیا ۔بیمار ملوانے والےنے کہا کہ میری آخری خواہش ہے کہ اس کو اکاموڈیٹ کرلیا جائے ۔

وزیر اعظم نےبڑے دل کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کہا کہ چلیں آپ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کیساتھ کام کریں ۔اس کا مطلب تھا کہ وہ وزارت اطلاعات کے کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرینگے ۔اب اُنہوں نے اپنی پرانی عادت کے مطابق سرکاری قاعدے سے باہر نکل کرفوری طور پر تمام پی آر اوز کی ایک میٹنگ کےلئے لیٹر جاری کردیا ۔بس اس لیٹر کا جاری ہونا تھا۔

وزارتِ اطلاعات میں تھر تھلی مچ گئی۔چونکہ ابھی شہباز گل کی کوئی سرکاری حیثیت واضح نہیں تھی ۔اس لئے پی آر او ڈٹ گئے کہ یہ کس حیثیت میں ہمیں بلا رہا ہے ۔

یہ خفگی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان تک پہنچی ۔پھر موصوف ان سے ملے اور ’’آپا جی آپا جی ‘‘کہہ کہہ کر صفائیاں پیش کرتے رہے ۔جس فردوس عاشق اعوان کے سامنے فواد چوہدری ، یوسف بیگ مرزا اور افتخار درانی کھڑے نہیں ہو سکے وہاں شہباز گل کی کیا حیثیت ہے ۔بس یہی کہا جا سکتا ہے ‘‘نواں آیاایں سوہنڑیا‘‘

تازہ ترین