کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے آئندہ سال (2020)کے لیے گندم کی امدادی قیمت 1365روپے فی من مقرر کی ہے جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 65روپے زیادہ ہے۔ سرکاری شعبے کو اس مقصد کے حصول کے لئے 82لاکھ 50ہزار ٹن خریدنے کی منظوری دی گئی ہے جبکہ ضرورت پڑنے پر آئندہ سال کے دوران پانچ لاکھ ٹن گندم درآمد بھی کی جا سکے گی۔ اگر آئندہ برس کے دوران ملک میں گندم کی طلب و رسد کا توازن برقرار رہتا ہے تو یقیناً اسے درآمد کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ گزشتہ برس کے تناظر میں جو تشویشناک صورتحال حالیہ دنوں میں اس وقت پیدا ہوئی کہ جب نئی فصل کی قیمتوں کے تعین کا وقت ہے، منافع خوروں اور سماج دشمن عناصر نے اس کا مصنوعی بحران پیدا کیا جبکہ اس کی اسمگلنگ بھی اسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ اب اقتصادی رابطہ کمیٹی نے نئے سال میں صوبہ خیبرپختونخوا کیلئے پاسکو سے ایک لاکھ ٹن اور سندھ کے لئے 50ہزار ٹن اضافی گندم خریدنے کی بھی منظوری دی ہے، یہ کثیر الجہتی حکمتِ عملی ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ افغانستان چونکہ اپنی گندم کی زیادہ تر ضرورت پاکستان سے پوری کرتا ہے لہٰذا عموماً ایکسپورٹ کا مقررہ ہدف پورا ہونے کے بعد وہاں اس کی اسمگلنگ تک نوبت جا پہنچتی ہے جس میں بہت سے فلور مل مالکان اور کسٹم اہلکاروں کی ملی بھگت شامل ہوتی ہے، حالیہ بحران اسی رجحان کا شاخسانہ تھا۔ دوسری طرف نئی امدادی قیمت کا تعین بنیادی طور پر کاشتکاروں کے نفع نقصان کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے جس کے لئے ہر سال اقتصادی رابطہ کمیٹی نئی قیمتیں مقرر کرتی ہے۔ اب جبکہ آئندہ دو ماہ میں نئی فصل آنے والی ہے، ضروری ہو گا کہ فوڈ سیکورٹی کو فول پروف بنانے کی خاطر گندم کی خریداری کے مقررہ ہدف پر کڑی نظر رکھی جائے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998