’’الرجی‘‘ایک عام مرض ہے، جو یونانی زبان کے دو الفاظ سے مل کر بنا ہے۔پہلا لفظ، Allosجس کے معنی دوسرا، مختلف، عجیب (Other,Different,Strange) ہیں اور دوسرا Ergon، جس کا مطلب کام یا فعل ہے۔ الرجی کو آسان الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ کچھ افراد بعض اشیاء کے کھانے، سونگھنے، چُھونے یا سانس کے ساتھ جسم میں پہنچ جانے سے بیمار ہوجاتے ہیں، جب کہ دیگر افراد پر ان اشیاء کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ طبّی اصطلاح میں اس ردِّعمل کو الرجی کا نام دیا گیاہے اور جو چیز اس ردِّعمل کی ذمّے دار ہوتی ہے، اُسے الرجن (Allergen)کہا جاتاہے۔ طبّی ماہرین نے تمام ایسی بیماریوں کو الرجی سے موسوم کیا ہے،جو حسّاسیت (Sensitivity) کے طور پر مریض پر ظاہر ہوتی ہیں۔ الرجی کا بنیادی سبب قوتِ مدافعت کی کمی اور حسّاسیت ہے۔اصل میں جب مدافعتی نظام کم زور پڑجاتا ہے تووائرس، بیکٹیریا یا پھر پیراسائٹ کو جسم میں داخل ہوکر افزایش کا موقع مل جاتا ہے، نتیجتاً الرجی ہوجاتی ہے۔الرجی کی شکایت کسی فرد کو زیادہ متاثر کرتی ہے ،تو کسی کو کم۔ علاوہ ازیں، الرجی موروثی بھی ہوسکتی ہے، جو نسل درنسل چلتی ہے۔
الرجی کی کئی اقسام ہیں۔مثلاًپولن،پالتو جانوروں یاپرندوں کے سبب ہونے والی،ڈرگز، فوڈ اور اسکن الرجی وغیرہ ۔ ایک عام الرجی، جو مٹّی،دھول اوردھویں کے باعث لاحق ہوتی ہے، پاکستان سمیت کئی ایشیائی مُمالک میں عام،جب کہ یورپی مُمالک اور امریکا میں ناپید ہے۔تاہم، ان مُمالک میں الرجی کی دیگر اقسام عام ہیں۔ جیسے پولن الرجی ۔ایک الرجی Atopic dermatitis کہلاتی ہے،جس میں مبتلا افراد کی جِلد متوّرم ہوجاتی ہے۔
اے ٹوپک ڈرماٹائیٹس عام طور پر کم عُمری میں شدید نوعیت کی ہوتی ہے،مگر عُمر بڑھنے کے ساتھ اس کی شدّت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس الرجی کی علامات میں درد، خارش، چھالے، منہ کے کناروں کا پھٹنا اور بار بار جِلدی امراض کا لاحق ہونا شامل ہیں۔ اے ٹوپک ڈرماٹائیٹس سے متاثرہونے کی کی کوئی ایک وجہ نہیں، تاہم زیادہ تر کیسز میں فضائی یا کیمیائی آلودگی، مصنوعی زیورات کا استعمال، پرفیوم اور صابن وغیرہ اسباب بنتے ہیں۔علاوہ ازیں، خاص قسم کے کیڑوںDust mitesکا(جو گرد کے جراثیم ہوتے ہیں)فضلہ اگر دھول مٹّی میں شامل ہوکر نظامِ تنفس کے ذریعے جسم میں داخل ہوجائے،تو بعض افرادکے لیے الرجی کاسبب بن جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ڈسٹ مائٹس عام طور پر گھر کے اندرونی حصّوں،کونے کھدروں میں موجود مٹّی گرد، دھول، پردوں اور قالینوں وغیرہ میں پائے جاتے ہیں۔
اس قسم کی الرجی کی عام علامات میں چھینکیں آنا ، ناک بہنا، جِلدی خارش، گلے میں خراش اور کھانسی وغیرہ شامل ہیں۔بعض حسّاس افراد کے لیے ٹریفک، خصوصاً ڈیزل کا دھواں الرجی کا سبب بنتا ہے،جب کہ صنعتی علاقوں کے آس پاس رہنے والے زیادہ تر افراد فیکٹریوں سے نکلنے والے دھویں سے متاثر ہوکر الرجی کا شکار ہوجاتے ہیں۔بعض افراد کو کھانے پینے کی مخصوص اشیاء سے الرجی ہوسکتی ہے۔
اس فوڈ الرجی میں ہوتا یہ ہے کہ کھانے کے کسی مخصوص شے کے ذریعے جسم میں کوئی ایسا جُزو داخل ہوجاتا ہے، جسے جسم قبول نہیں کرتا اور پھراس کا ردِّعمل الرجی کی صُورت ظاہر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر بعض افراد کو انڈے، جھینگے، مونگ پھلی وغیرہ سے الرجی ہوتی ہے۔ اگر یہ افراد نادانستگی میں انڈا،جھینگا، مونگ پھلی یا اس سے تیار شدہ کوئی شے کھالیں، تو فوری طور پر ردِّ عمل ظاہر ہوتا ہے۔واضح رہے کہ فوڈ الرجی کی علامات کھانے والی شے کےلحاظ سے ظاہر ہوتی ہیں۔ جیسے انڈےسے الرجی کی صُورت میں جسم پر دانے نکل آتے ہیں، سوئیاں سی چُبھتی محسوس ہوتی ہیں یا پھر اس قدر شدید خارش ہونے لگتی ہے کہ جس پر قابو پانا آسان نہیں ہوتا۔ بعض افراد کو پرفیوم، عِطر یا تیز خوشبو سے بھی الرجی ہوتی ہے،جس کی واضح علامت سانس لینے میں دشواری ہے۔
اگر پولن الرجی کا ذکر کریں، تواس کا سبب مخصوص اقسام کےپودے، درخت اورپھول ہیں۔ پولن انگریزی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی پھول کا ریزہ یا زرگل ہے ۔یہ چھوٹے چھوٹے ذرّات ہوتے ہیں، جو پھولوں کے اندر پائے جاتے ہیں۔ جب یہ ذرّات ہوا کےساتھ اُڑ کر ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہوجائیں، تو الرجی کا سبب بن جاتے ہیں۔پولن الرجی کی شرح پاکستان اور آسٹریلیا میں بُلند ہے۔اسلام آباد میں بعض پودوں کا بُور فضا میں پھیل کرسانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوکر پولن الرجی کا باعث بنتا ہے اورعام طور پر موسمِ بہار میں یہ مرض بڑھ جاتا ہے۔
آسٹریلیا میںاسے گراس الرجی کہا جاتا ہے،کیوں کہ وہاں اس کا سبب گھاس کے زرگل ہیں۔پولن الرجی سے محفوظ رہنے کے لیےاینٹی الرجک ادویہ یا ویکسین تجویز کی جاتی ہے،جو مدافعتی نظام کو پولن الرجی سےدفاع کے قابل کر دیتی ہے۔پولن الرجی کی علامات میں بےتحاشا چھینکیں آنا، سانس لینے میں دشواری، آنکھوں سے پانی خارج ہونا، بخار، خارش، گلے کی خراش، بےزاری، سُستی اور خراٹے لینا وغیرہ شامل ہیں۔بعض حسّاس افراد کو سَر کی خشکی سے بھی الرجی ہوجاتی ہے۔ وہ اس طرح کہ جب کنگھی کی جاتی ہے، تو اس دوران خشکی کے ذرّات ناک، کان اور آنکھوں میں چلے جاتے ہیں اور یوں انہیں الرجی کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔
نوزائیدہ بچّوں میں بھی الرجی کی شکایت پائی جاتی ہے۔ دراصل نوزائیدہ بچّوں میں قوّت مدافعت کا نظام عُمر بڑھنے کے ساتھ مکمل اور مضبوط ہوتا ہے۔اگر نوزائیدہ کی نگہداشت کے معاملے میں احتیاط نہ برتی جائے، تو یہ جَلد مختلف بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ایک مرض دَمہ ہے، جس کی بنیادی وجہ بھی الرجی ہی ہے۔اصل میں جب الرجی شدّت اختیار کر کے سانس کی نالیوں پر اثر انداز ہوتی ہے، تو یہ متوّرم ہوکر تنگ ہوجاتی ہیں اور یہ تکلیف اس قدر بڑھتی ہے کہ بالآخر مریض دَمے کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس کی عام علامات چھینکیں آنا، سانس پھولنا، کھانسی اور سینے میں درد ہے۔اسی طرح آنکھوں کی بھی الرجی ہوتی ہے اور یہ اُس وقت ہوتی ہے، جب الرجن( وہ ذرّہ جو الرجی پیدا کرتا ہے) آنکھ کی اوپر والی جھلّی کو متاثر کرتا ہے۔ اس کی علامات میں آنکھوں سے پانی آنا، خارش، سُوجن اور آنکھ کا سُرخی مائل ہوجانا شامل ہیں۔ بعض افراد کو کسی مخصوص دوا سے الرجی ہوجاتی ہے، جو ڈرگ الرجی کہلاتی ہے۔ ڈرگ الرجی کی علامات ہر مریض میں مختلف ظاہر ہوتی ہیں۔ جیسے کسی کے جسم پر دانے بن جاتے ہیں،توکسی کو خشک خارش ہوجاتی ہے۔مشاہدے میں ہے کہ عام طور پرالرجی کی ابتدائی علامات پردھیان نہیں دیا جاتا اور جب مرض شدّت اختیار کرلیتا ہے، تو معالج سے رجوع کیا جاتا ہے، لہٰذا جب ایک ہی طرح کی علامات بار بار ظاہر ہوں اور عام علاج سے افاقہ بھی نہ ہورہا ہو، توفوری طور پر کسی ماہرمعالج سے رابطہ کریں۔
(مضمون نگار، حامد ہیلتھ کئیر سینٹر،کمیر شریف، ساہی وال میں فرائض انجام دے رہے ہیں)