ناخوشگوار اورقابل افسوس حقیقت یہ ہے کہ پاکستان غربت و افلاس کا شکار ہے ۔ غریب نہ صرف ان معنوں میں کہ یہاں زیادہ تعداد میں غریب اور مفلوک الحال لوگ بستے ہیں بلکہ ان معنوں میں بھی کہ یہاں عزم و ارادہ، حرکت و عمل، جرأت و حوصلہ مندی اور دیگر صلاحیتوں کا بھی شدید فقدان ہے ۔ ہم نے کبھی سنجیدگی سے اس مسئلے پر غور ہی نہیں کیا کہ آج کی دنیا کے اعلیٰ تکنیکی و اطلاعاتی نظام میں طاقت و اقتدار کا منبع علم ہے۔ ایسا علم جو سوچنے اور غور و فکر کی صلاحیت پیدا کرسکے ،جس کے بغیر ہمارے محنت کش کارکنان نہ ہمارے معاشی مفادات کو اور نہ ہی ہمارے سماجی مفادات کو بڑھاوا دے سکتے ہیں ۔ اگر ان رویوں کو جلد درست نہ کیا گیا تو ہم کمزور ،پسماندہ اور مغلوب ہی رہیں گے۔ یہ تلخ حقیقت بطور قوم نہ صرف ہمارے اندرونی اتحاد، ہم آہنگی اور یکجہتی کو پارہ پارہ کیے ہوئے ہے بلکہ اقوام عالم میں ہماری بین الاقوامی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچا رہی ہے ۔ بین الاقوامی تعلقات میں حقیقت پسندی کے نظریے کے مطابق ایک کمزور ، پسماندہ قوم سے غلام قوم جیسا رویہ ہی روا رکھا جاتا ہے اور وہ صدا طاقت ور متمول قوموں کے اشاروں پر ناچتی رہے گی۔ فی الوقت پاکستان ایک تبدیلی کے عمل سے دوچار ہے ۔ ہمارا خدمات کا شعبہ بہتری کی طرف گامزن ہے مگر صنعتی شعبہ غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے ۔ صنعتی ترقی کی دوڑ میں شمولیت اور صنعتی معیشت کا حصول ایک ثقافتی تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کے لیے پاکستانی معاشرے کو ایک ایسی ثقافت سے جو مادّی ترقی کے تصور سے متصادم ہے سے ایک ایسی ثقافت میں بدلنا ہوگا جو مادی ترقی کے حصول کے لیے کوشاں اور معاون ہو۔ جدید سماجی فکر کی ابتدا ہی سے سماجی سائنس دان اور ماہر عمرانیات اس حقیقت کا انکشاف کر رہے ہیں کہ ثقافت اور ترقی باہمی تعاون و اشتراک سے ہی ہم قدم رہ سکتے ہیں۔ صرف ایک روشن خیال اور تنقید سے بہرہ ور ثقافت ہی خوشحالی کو جنم دے سکتی ہے ۔ ایک ایسی روشن خیال اور ترقی پسند ثقافت جو تنظیم، منصوبہ بندی، وقت کی قدر، مستقبل کی خوشحالی کے لیے فوری تنگدستی اور برداشت، عقلیت و فکر انگیزی، تخصیص کار، تقسیم کار، تنقیدی رویے، قانون پسندی، فکری آزادی جیسی اعلیٰ خوبیوں سے مزین ہو۔ ان خصوصیات سے عاری ثقافتی ارتقاء غیر متوازن اور فاضل زر یعنی دولت کے حصول کے ارتقاء میں ممد و معاون نہ ہوگا ۔ اعلیٰ تعلیم کے بغیر ان ترقی پسند اوصاف کا حصول ماہرین تعلیم اور محققوں کے لیے ایک معمہ ہی رہے گا۔ اعلیٰ تعلیم کے مخالفین کو اس حقیقت سے باخبر ہونا چاہئے کہ ثقافتی ترقی اور انسانی سرمائے کی تربیت کے بغیر (جو صرف اور صرف اعلیٰ تعلیم ہی سے ممکن ہے ) کسی بھی قوم کے لیے معاشی خوشحالی کا حصول ایک خواب ہی رہے گا ۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا کہ جدیدیت بالخصوص معاشی، سیاسی اور ثقافتی جدیدیت اعلیٰ تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ ترقی کی جانب ثقافتی تبدیلی ایک ترقی پسند سوچ کی مظہر ہے ۔ بعینہ سیاسی ترقی کے لیے ایک جمہوری سوچ درکار ہے جو کشادہ اور روشن خیال ذہنوں ہی میں جاگزیں ہو سکتی ہے ۔
آج کے اس جمہوری ارتقاء کے دور میں جمہوری روایات کو تعلیم پر عمومی توجہ مرکوز کیے بغیر بالخصوص اعلیٰ تعلیم کے بغیر سماجی و ثقافتی روایات میں پیوست کرنا ممکن نہیں۔ فی الوقت ہم ایک انتہائی کم تعلیم یافتہ اور کم تربیت یافتہ انسانی وسائل سے دوچار ہیں ۔ درحقیقت ہم کچھ بھی پیدا نہیں کر رہے ۔ پسماندہ ٹیکنالوجی کے سر پر ہم قومی خزانے میں جو قلیل سرمایہ منتقل کررہے ہیں وہ ایک پسماندہ معاشی ترقی کی شرح کو بمشکل ادنیٰ سطح پر قائم رکھ رہا ہے ۔ نتیجتاًہم دساور سے ہر قسم کی اشیاء درآمد کر رہے ہیں ۔درآمدات پر انحصار ہماری کمزور معیشت پر ایک گراں قدر بوجھ ہے ۔ بیرونی ممالک میں ہمارے کاریگر اور مزدور ادنیٰ ترین سطح کے کام کرنے کے قابل ہیں ۔ اس کی واحد وجہ ہمارے نظام تعلیم کا پست معیار اور اعلیٰ تعلیم پر عدم توجہ ہے ۔ انسانی ذرائع کا یہ ناگفتہ بہ معیار ہمیں آنے والے وقتوں میں تباہی سے ہمکنار کردے گا ۔
آج ہماری غیر تربیت یافتہ نوجوان نسل انتہا پسندی کی جانب رواں دواں ہے اور تخریب کاری میں ملوث ہوتی جارہی ہے ۔ لیکن صد افسوس کہ پالیسی کی سطح پر ابھی تک ہم اسی الجھن کا شکار ہیں کہ ابتدائی تعلیم یا اعلیٰ تعلیم میں سے کس کو اولیت دی جائے اس حقیقت سے قطعاً ناآشنا کہ دونوں سطح کی تعلیم پر دسترس ہماری اولین ضرورت ہے اور اس حقیقت سے اغماض کہ دونوں سطح کی تعلیم ایک دوسرے کے معاون ہو کر ہی ایک مضبوط و توانا قومی تعلیمی نظام تشکیل دے سکتی ہیں ۔ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم ایک دوسرے کے منافی نہیں بلکہ مددگار ومعاون ہیں۔ آج کی تیزی سے سمٹتی ہوئی دنیا میں ہم اعلیٰ تعلیم سے غفلت نہیں برت سکتے،ہم اس تساہل کا شکار رہیں الجھے ہوئے ہیں کہ پہلے ہر شہری کی ابتدائی تعلیم کا حصول ممکن بنائیں اور پھر اعلیٰ تعلیم پر متوجہ ہوں۔ ہمیں بیک وقت دونوں سطح پر تیزی سے آگے بڑھنا ہو گا۔ ابتدائی تعلیم کو بھی زیادہ فعال اور کارآمد بنانے کیلیے منصوبہ بندی، تنظیم سازی اور مناسب وسائل کا حصول ممکن بنانا ہوگا بالخصوص ایک ایسی ذہنی اُپج پیدا کرنا ہوگی جو ماضی میں خواب خرگوش کے مزے لینے کی بجائے مستقبل کی ضرورتوں اور سچائیوں پر مرکوز ہو۔ پس ایک تخلیقی اور جدید ابتدائی تعلیم ہی ایک کارآمد اور مفید اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ انسانی وسائل کی ترقی ہی ہماری بقاء اور سماجی استحکام کی ضمانت ہے جس کے لیے ہمیں نظام تعلیم کی تمام سطحوں پر توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بلاشبہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو جہد مسلسل ،توجہ اور نگہداشت کی ضرورت ہے لیکن اس حقیقت سے پہلو تہی بھی نہیں کی جاسکتی کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن پاکستان کے ان معدود چند اداروں میں سے ایک ہے جن کی کارکردگی معیاری رہی ہے ۔ جس کی توجہ اپنے اہداف پر کامیابی و کامرانی سے مرکوز رہی ہے ۔ اسی حقیقت کے پیش نظر درد مند دل رکھنے والے محب وطن پاکستانیوں کی خواہش ہے کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی آزادی اور خود مختاری پر کوئی آنچ نہ آنے پائے اور یہ ادارہ ان طالع آزماؤں کی دست برد سے محفوظ رہے جو اس کی آزادی اور خود مختاری سلب کرنا چاہتے ہیں۔