استنبول : لورا پیٹل
ترکی نے لیرا پر عائد پابندیوں کو مزید سخت کردیا ہے کیونکہ وہ ملک کی کرنسی کو سنبھالنے کی کوششوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے حتیٰ کہ اس نے شرح سود میں بھی کمی کی ہے اور تیزی سے ترقی کی جانب واپسی چاہتا ہے۔
جمعہ کو ڈالر کے مقابلے میں 6 لیرا سے زائدکمی کے بعدغیرملکی تاجروں کی جانب سےکرنسی کے حوالے سے قیاس آرائیوں کو محدود کرنے کیلئے بینکنگ ریگولیٹرز نے اتوار کی رات پابندی کا اعلان کیا۔یہ گزشتہ برس مئی کے بعد پہلی بار ہے کہ اس نے علامتی دہلیز کو عبور کیا ہے۔پیر کے اوائل میں ترک لیرا نے ڈالر کے مقابلے میں 4.0 فیصدتجارتی استحکام حاصل کیا۔
اس تازہ ترین اقدام سے کرنسی کے بحران کے دوران متعارف کردہ کنٹرول میں توسیع ہوئی ہے،جس نے اگست 2018 میں ممالک کو متاثر کیا تھا۔اس سے ترکی کے بینکوں اور غیر ملکی ہم منصبوں کے مابین کرنسی کے تبادلوں اور اس طرح کے دوسرے لین دین کو بینک کے ریگیولیٹری کیپیٹل کے 25 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کردیا گیا ہے۔
ترک حکام نے 2018 کے بعد سے کرنسی کے نظم ونسق کے لئے مداخلت پسندانہ انداز اختیار کیا ہے، جب ترک صدر طیب اردوان نے ایک طاقتور نئے نظام حکمرانی کا مظاہرہ کیا اوریہ عہد کیا کہ وہ ملک کے معاشی نظم و نسق میں زیادہ فعال کردار ادا کریں گے۔
طیب اردوان جو بلند شرح سود کے اعلانیہ مخالف ہیں، گزشتہ سال جولائی سے تیزی سے مالیاتی نرمی کی مدت کی نگرانی کررہے ہیں،یہاں تک کہ افراط زر میں اضافےسے سرمایہ کاروں کیلئےمنافع کی حقیقی منفی شرح پیدا ہوئی۔
لیرا کو مستحکم رکھنے کی کوشش میں، سرکاری بینک نے گزشتہ ایک سال کے دوران اوپن مارکیٹ میں ڈالر فروخت کرنے کا فیصلہ کیا،جبکہ ریگولیٹرز نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی شارٹ سیلنگ( اس امید پر ادھار لیے گئے مہنگے شیئرز کی فروخت کہ جب ان کی قیمتیں گر جائیں گی تو آپ دوبارہ خرید کر انہیں مالک کو واپس کردیں گے، اور اس عمل سے حاصل ہونے والا منافع اپنے پاس رکھیں گے) کرنے کے اقدامات کا اعلان کیا ۔
درجہ بندی کا تعین کرنے والی ایجنسی اسٹینڈرڈ اینڈ پوورز نے حالیہ رپورٹ میں ملک کےسرکاری زرمبادلہ کی شرح کو بطور منظم فلوٹ بیان کرتے ہوئے مداخلت کا اشارہ دیا۔
اگرچہ ہیج فنڈز کو لیرا کے خلاف بازی لگانے کے عمل کو بہت مشکل بناکران اقدامات کو کچھ کامیابی ملی ہے، انہوں نے سرمایہ کاروں کو ترکی کے اثاثے رکھنے سے باز رکھا۔بلومبرگ کے مطابق، جنوری کے آخر میں جاری کردہ اعدادوشمار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ 12 ماہ کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاروں نے ترک بانڈز میں 33 ارب ڈالرز سے زیادہ کی فروخت کی،اور مقامی کرنسی کے قرضوں کی منڈی میں اپنا حصہ 11 فیصد کی کم ترین ریکارڈ سطح پر لے آئے۔
ایک اور اقدام کے طور پر ترکی نے فیسوں پر نئی پابندیاں عائد کردی ہیں جو بینکوں کے ذریعے وصول کی جاسکتی ہیں،ایک ایسا اقدام جس پر وزیر خزانہ بیرات البیارک نے تنقید کی کہ کچھ نجی بینکوں کی منافع پر بہت زیادہ توجہ مرکوز تھی اور وہ معیشت کی بحالی کے لئے خاطر خواہ کام نہیں کررہے تھے۔