ایسے ملک میں جو خواتین سے تعصب میں دُنیا میں سرفہرست ہو اور جہاں 90فیصد عورتیں جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہوں وہاں عورتوں کا اپنے جسم پہ اپنے اختیار کا تقاضا کرنا تھا کہ اِک طوفاں بپا ہو گیا۔
جیو کے اینکر شاہ زیب خانزادہ کو پوچھنا پڑ گیا کہ ’’میرا جسم، میری مرضی‘‘ نہیں تو کیا ’’میرا جسم، مرد کی مرضی‘‘ ہو؟ سارا جھگڑا اسی پہ ہے کہ عورت مرد کی باندی رہے یا ایک معتبر اور رفیق انسان۔
انسانی، جمہوری، سماجی، سیاسی و نظری مانگیں صرف مردوں کے لیے مخصوص نہیں۔ پھر مردانہ خفگی کیوں؟ کیا اس لیے کہ جب عورتیں حقِ خود اختیاری اور مساوی صنفی و انسانی حقوق مانگیں تو پدر شاہانہ بالادستی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
اگر عورت اپنے جسم و جان، فکر و خیال، آرائش و زیبائش، تعلیم و روزگار، شادی و خانہ داری، ماہواری و زچگی اور تولیدگی کے حقوق، بچوں کی پرورش، مساوی مواقع، مساوی اُجرت کیلئے اور جنسی تشدد، عصمت دری، نوعمری کی شادی اور فرسودہ رسومات کے خلاف آواز بلند کرے اور بطور انسان برابری کی طالب ہو تو بہت سے شقی القلب مرد حضرات اس پر کیوں سیخ پا ہوتے ہیں۔
وہ عورت کی خود مختاری کو فحاشی یا مغربی کلچر سے منسوب کر کے دراصل عورتوں کی مہذب انسانی منشائوں کی تذلیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھولتے ہوئے کہ اگر عورت توانا ہوگی تو مرد پہ بوجھ نہیں بنے گی بلکہ عورت کی توانائی سے مرد بھی تگڑا ہوگا۔
کونسی عورت ہے جو فحاشی چاہے گی کہ فحاشی کے بڑے متوالے جنسِ مخالف میں پائے جاتے ہیں۔ ایک طرف عورت کو جسم بیچنے پہ مجبور کیا جاتا ہے تو دوسری طرف غیرت کے نام پر قتل۔اقوامِ متحدہ کا اجماع ہے کہ ’’عورتوں کے حقوق انسانی حقوق‘‘ ہیں، بشرطیکہ آپ عورت کو پورا انسان سمجھیں جو پاکستان میں آدھی کر دی گئی۔
مرد کے پائوں کی جوتی سے لیکر، مرد کی خوشنودی کے تمام تر لوازمات پورے کرنے والی صنفِ نازک۔ ماں، بہن، بیٹی اور زوجہ کے رشتوں کی تقدیس کے دعوے بہت کیے جاتے ہیں، لیکن ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق عورتوں کے ساتھ ہونے والی تمام تر زیادتیوں اور محرومیوں کو دور تو کیا کرتے وہ اپنی جبلی نفرت کا اظہار عورتوں سے منسوب گالیوں سے کرتے ہیں۔
جنسی جرائم کرنیوالے عصمت دری کا شکار ہونے والوں کی بدنامی کے خوف کے باعث اپنے سبق آموز انجام سے بچ نکلتے ہیں۔ کبھی کبھار کسی زینب کا دلخراش واقعہ سامنے آ جاتا ہے تو قاتل زانی کو پھندے پہ لٹکا کر ہم چین کی نیند سو جاتے ہیں، جبکہ جنسی تشدد، زیادتی، زنا بالجبر، ہراسگی اور جنسی تفریق جاری و ساری رہتی ہے۔
حیران کُن بات یہ ہے کہ لچر فلموں کے فحش نگار، کھلے جنسی آئٹم گانے لکھنے والے اور عریاں منظر نگاری کرنے والے بھی شرم و حیا اور اسلامی عفت و عصمت کے مبلغ ہو گئے ہیں۔
اب اسلامی تہذیب وہ سکھائیں گے، مغلظات، مجرے اور جنس پرستی جن کا شیوا ہے۔ جو عورت کو فقط سفلی تشفی کا آلہ سمجھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک عورت ایک شے ہے، بکائو مال یا پھر مال بیچنے کا دلکش اشتہار۔ دراصل سارا کنفیوژن امریکہ میں جاری My Body, My Choice تحریک کے بےباک ترجمے سے ہوا ہے۔ امریکہ میں تولیدی حقوق کی تحریک قدامت پسند امریکیوں کے مانع حمل ضوابط کے خلاف ہے۔
جب بچیوں کی عصمت دری ہوگی، راہ چلتے بھوکی نگاہیں تعاقب کریں گی، درسگاہوں اور دفاتر میں جنسی ہراسگی ہوگی تو عورت کیوں نہ چلا کر کہے گی کہ میرے جسم پر تمہاری مرضی نہیں چلے گی۔ یہ تو فحش نظروں اور جنسی حملوں کے خلاف مزاحمت کی آواز ہے جس پر بھنانے کی ضرورت ہے نہ فتوے صادر کرنے کی۔
مدرسری نظام میں عورت ہی حکمران رہی تاآنکہ نجی ملکیت کے ظہور کے ساتھ پدر شاہی نظام نے اُس کی جگہ لے لی یوں جنسی تقسیم کا آغاز ہوا جو ہزار ہا سال چلا اور چلا جا رہا ہے۔ سرمایہ داری نظام کے آتے ہی عورت کو بھی منڈی کی شے بنا دیا گیا،یہی وہ عدم شراکت تھی جس نے جدید دور کی نسائی تحریک (Feminism) کو جنم دیا۔
اس کی پہلی لہر سفرجیٹ موومنٹ یا عورتوں کے حقِ رائے دہی کے لیے تھی جس میں ووٹ کا حق، انتخاب لڑنے کا حق، جائیداد کا حق، مالی خود مختاری اور مساوی مواقع کے مطالبات سامنے آئے۔
دوسری لہر نسواں شہری حقوق کے لیے تھی، جیسے مارٹن لوتھر کنگ کی سول رائٹس موومنٹ۔ اِس لہر میں مساوی اُجرت، مساوی مواقع، جنسی ہراسگی سے تحفظ، زچہ بچہ کے حقوق، حاملہ عورتوں کے حقوق اور مرد و زن کی مساوات پہ زور دیا گیا۔
اسی اثنا میں اشتراکی نسائیت پسندی کی تحریک نے جنم لیا جس کی فکری تشریح سائمن ڈی بیووائر نے اپنی کتاب سیکنڈ سیکس میں کی۔ یہ عورت کی نابرابری اور استحصال کو طبقاتی استحصال کے ساتھ جوڑ کر سماجی نجات کی پرچارک ہے۔ لیکن خود اشتراکیت پسند عورت کے سوال کو طبقاتی سوال کے تابع کرتے ہوئے عورتوں کی نجات کے معاملے میں تغافل کے مرتکب رہے۔تیسری لہر نسواں نے عورت کو منڈی کی شے بنانے (کموڈٹیفیکیشن)، اس کی جنسی معروضیت، باربی گڑیا اور اشتہارات کی زینت بنانے، انسانی رشتوں کو محض جنسی کاروباری رشتوں میں بدلنے کے خلاف محاذ گرم کیا۔
جبکہ چوتھی لہر نسواں نے مغرب میں اپنے اعضا سے شرمسار ہونے کی بجائے اپنی نسوانیت کا پرچم لہرا دیا اور صنفی سوال کو تمام دیگر جنسی شناختوں اور اظہار کے ساتھ جوڑ دیا اور سبھی طرح کے صنفی مظاہر اور حلقوں کے حقوق کو نسوانی نجات کے مطالبوں سے مربوط کر دیا۔
افریقن امریکی خاتون کمبریلا کرینشا نے عورت کے سوال کو ہر طرح کے نسلی امتیازات، مذہبی تفریق اور طبقاتی عدم مساوات اور ہر طرح کے مظلوموں اور محروموں کی چوراہے میں بین الجہاتی جدوجہد کے ملاپ سے جوڑ دیا۔ یہ اشتراکی تحریک نسواں ہی کی ایک تخلیقی صورت ہے۔
تحریک نسواں کے اس جائزے سے ظاہر ہے کہ عورتیں حقِ خودمختاری چاہتی ہیں اور مردوں کے مساوی حقوق کا تقاضا کرتی ہیں کہ شرفِ انسانی پانا مرد و زن سبھی کا یکساں مقدر بنے اور پدرشاہی جبر اور عورت کی تذلیل ختم ہو۔
ظاہر ہے جس کی طاقت اور بالادستی چھینی جائے گی وہ اسے کیسے برداشت کرے گا یہ نہ جانتے ہوئے کہ عورت کی توانائی اور آزادی میں ہی مردوں کی نجات مضمر ہے۔ مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی!